بنات اربعہ شیعہ کتب سے
بنات اربعہ شیعت کا تعاقب
حیدر علی السلفی
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على عبده ورسوله نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين
اما بعد
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
سورہ الاحزاب :59
اے نبی
اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
شیعہ روافض کا یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں،اس کے علاوہ کوئی دوسری بیٹی نہیں تھی، جبکہ قرآن مجید اس بات کا رد کرتا ہے جیسا کہ پہلے سورہ الاحزاب آیت 59 میں واضح کر دیا گیا ہے،شیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیوں سیدہ زینب،سیدہ رقیہ،سیدہ ام کلثوم کا بنات رسول ہونے سے انکار کرتے ہیں، ہم نے شیعہ کی معتبر کتب حدیث، تاریخ ،فقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں کو ثابت کیا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہیں والحمدللہ۔
ایک اعتراض
شیعہ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ کی شادی کے وقت عمر 25 سال تھی چار سال بعد بیٹا قاسم پیدا ہوا، چالیس سال بعد نبوت ملی 25 میں 4 سال قاسم کی پیدائش کے شامل کر لو 29 سال اور اب 40 سال میں سے پہلے 29 سال نکال لو پیچھے 11 سال رہ جاتے ہیں اب کون پاگل ہے جو یہ کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان 11 سالوں کے اندر اندر بیٹیوں کا نکاح کر دیا کیونکہ اسی لیے ہی تو کفار سے ان کے نکاح قبل از نبوت ثابت ہوتے ہیں ۔
شیعہ کی معتبر کتاب لکھا ہے:
وَ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ وَ هُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَ عِشْرِینَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ الْقَاسِمُ وَ رُقَیَّةُ وَ زَیْنَبُ وَ أُمُّ کُلْثُومٍ وَ وُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَ الطَّاهِرُ وَ فَاطِمَةُ وَ رُوِیَ أَیْضاً أَنَّهُ لَمْ یُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلَّا فَاطِمَةُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی جب آپ صلی کی عمر بیس اور کچھ سال تھی، تو بعثت سے قبل انکو ان سے اولاد میں قاسم اور رقیہ اور زینب اور ام کلثوم ملے اور بعثت کے بعد طیب اور طاہر اور فاطمہ علیہا السلام، اور روایت کی گئی ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی بعثت کے بعد سوائے فاطمہ علیہا السلام۔
الغيبتہ للطوسی جلد: 1صفحہ: 409
شیعہ محدثین کے نزدیک نکاح کے وقت سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچیس سال نہیں بلکہ بیس سال تھی والحمدللہ، جواب ملاحظہ فرمائیں۔
پہلا جواب۔
اس اعتراض میں کئی مغالطے ہیں، پہلا مغالطہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے چار سال بعد بیٹا قاسم پیدا ہوا یہ بات باسند ثابت نہیں ہے، دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ یہ بھی کہیں سے باسند ثابت نہیں ہے کہ فقط چالیس سال کے اندر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کے نکاح کر دئیے تھے۔
دوسرا جواب۔
جواب سے پہلے چند سوالات ملاحظہ فرمائیں۔
سیدہ فاطمہ کے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کتنی تھی۔؟
جب سیہ فاطمہ کا نکاح ہوا اس وقت سیدہ فاطمہ کی عمر کتنی تھی؟
ان سوالات کے بعد عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے اعلان کے بعد بھی اپنی بیٹیوں کے نکاح ان سے کئے ہیں جو اس وقت اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے امور کافی بعد نازل فرمائے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ. سورہ البقره :221
اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقت تک وه ایمان نہ ﻻئیں تم نکاح نہ کرو*، ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وه ایمان نہ ﻻئیں، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔ یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، وه اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے، تاکہ وه نصیحت حاصل کریں۔
جو شیعہ کہتے ہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیاں کفار کے نکاح میں دے دیں
ان سے عرض ہے کہ:
سیدنا لوط علیہ السلام کی بیوی کون تھیں ؟
سیدنا نوح علیہ السلام کی بیوی کون تھیں؟
سیدنا ایوب کی طلاق لینے والی بیویاں کون تھیں؟
فرعون ظالم کی بیوی سیدہ آسیہ کون تھیں؟
جو جواب آپ کا ہو گا وہ ہی ہمارا جواب ہے،الغرض سورہ البقره بالاتفاق مدنی سورتوں میں سے ہے، مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی پہلی سورہ ہے یہ سورہ تو سیدہ فاطمہ کے بھی نکاح کے بعد نازل ہوئی ہے۔
لہذا یہ اعتراض باطل قرار پایا و الحمد للہ ، سیدنا علی المرتضیٰ نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ امِ کلثوم بنت فاطمہ کا نکاح بارہ سال کی عمر میں کیا،یہ ہم نے بحمد اللہ تعالیٰ شیعہ کی معتبر کتب سے بیس روایات پیش کر کے ثابت کیا ہے دیکھیے ماہنامہ منہاج الحدیث شمارہ نمبر 3، شیعہ اپنے دجالی حساب سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اتنی عمر میں نہ تو بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے نکاح ثابت کیے جا سکتے ہیں، ہم نے اس منطق کو بھی باطل ثابت کر دیا ہے،اصول کافی میں لکھا ہے:
فاطمہ بنت محمد،رسول خدا کی بعثت کے پانچویں سال میں پیدا ہوئیں اور رسول کے بعد 75 دن بعد آپ نے رحلت فرمائی
اصول کافی جلد 3 صفحہ:46
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب پنتالیس سال تھی اس وقت سیدہ فاطمہ پیدا ہوئیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی،اب پنتالیس سال کو تریسٹھ سال سے نکال دیا جائے تو بقیہ اٹھارہ سال بچ جائیں گے، سیدہ فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد 75دن زندہ رہیں، سوال یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ کی عمر نکاح کے وقت کتنی تھی؟
اس کا جواب بھ اصول کافی میں موجود ہے،اصول کافی میں لکھا ہے:
رسول خدا کے جانے کے بعد اس دنیا سے آپ نے رحلت فرمائی اس وقت آپ کی کل عمر اٹھارہ سال تھی۔
اصول کافی جلد 3:صفحہ :46: باب: 114 فاطمتہ الزہرا علیہا السلام کی ولادت کے بارے میں،الشافی ترجمہ اصول کافی مطبوعہ مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور
سیدہ فاطمہ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو سیدہ فاطمہ کی عمر مبارک نکاح کے وقت بارہ یا تیرہ برس ثابت ہوتی ہے، جب نبوت کے بعد پیدا ہو کر سیدہ فاطمہ کا نکاح ہو سکتا ہے تو پھر باقی بنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور نکاح ثابت ہو جاتے ہیں۔
نقتہ:
بقول شیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے چار سال بعد بیٹا قاسم پیدا ہوا، اور پھر نبوت کے پانچویں سال سیدہ فاطمہ پیدا ہوئیں،پھر سوال یہ ہے کہ 29 سال اور 45 سال کے درمیان جو سولہ سال ہیں ان میں کونسی اولاد پیدا ہوئی؟کتنے بیٹے؟ کتنی بیٹیاں؟ کب اور کہاں؟ الغرض اب آپ تفصیل سے شیعہ کتب کی عبارات ملاحظہ فرمائیں۔
1-ثبوت:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْقَاسِمِ وَ الطَّاهِرِ ابْنَيْ نَبِيِّكَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى رُقَيَّةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا.
موسی کاظم رحمہ اللہ نے فرمایا، اے الله ﷻ! سلامتی بھیج اپنے نبی کے بیٹے قاسم اور طاہر پر، اے الله ﷻ! سلامتی بھیج رقیہ پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اسکے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی، اے الله ﷻ سلامتی بھیج ام کلثوم پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اسکے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی۔
تهذيب الأحكام جلد:3صفحہ: 120
سند کی تحقیق:
شیخ طوسی نے اس روایت کو تهذيب الأحكام میں صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ تهذيب الأحكام ہماری کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں کا ذکر ہو رہا ہے، رقیہ اور ام کلثوم، سلام اللہ علیہا یہ روایت صحیح الاسناد ہے۔
2-ثبوت:
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ اِبْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنِ اَلْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ ع أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أُمَامَةَ بِنْتَ أَبِي اَلْعَاصِ بْنِ اَلرَّبِيعِ وَ أُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اَللَّهِ فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَ عَلِيٍّ ع اَلْمُغِيرَةُ بْنُ نَوْفَلٍ
امام صادق رحمہ اللہ سے جنہوں نے فرمایا کہ ان کے والد امام باقر نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جن کی والدہ زینب بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تھیں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد مغیرہ بن نوفل نے ان سے شادی کی۔
سند کی تحقیق:
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور حدیث صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زینب بھی رسول الله کی بیٹی تھیں۔
تهذيب الأحكام جلد: 8 صفحہ: 258
3-ثبوت:
وَإِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا
زینب بنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو فاطمہ علیہا السلام اپنی عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی۔
سند کی تحقیق:
اسکی بھی سند معتبر ہے۔
تهذيب الأحكام جلد: 8صفحہ: 258
4-ثبوت:
حَدَّثَنِي مَسْعَدَةُ بْنُ صَدَقَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وُلِدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مِنْ خَدِيجَةَ: الْقَاسِمُ، وَ الطَّاهِرُ، وَ أُمُّ كُلْثُومٍ، وَ رُقَيَّةُ، وَ فَاطِمَةُ، وَ زَيْنَبُ. فَتَزَوَّجَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ، وَ تَزَوَّجَ أَبُو الْعَاصِ بْنُ رَبِيعَةَ- وَ هُوَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ- زَيْنَبَ، وَ تَزَوَّجَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أُمَّ كُلْثُومٍ وَ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَتَّى هَلَكَتْ، وَ زَوَّجَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مَكَانَهَا رُقَيَّةَ. ثُمَّ وُلِدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ- مِنْ أُمِّ إِبْرَاهِيمَ- إِبْرَاهِيمُ، وَ هِيَ مَارِيَةُ الْقِبْطِيَّةُ، أَهْدَاهَا إِلَيْهِ صَاحِبُ الْإِسْكَنْدَرِيَّةِ مَعَ الْبَغْلَةِ الشَّهْبَاءِ وَ أَشْيَاءَ مَعَهَا.
مجھ سے بیان کیا مسعدہ بن صدقہ نے، اس نے کہا مجھ سے جعفر بن محمد عليه السلام نے بیان کے اپنے والد (امام باقر عليه السلام) سے کہ رسول الله ص کی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اولاد تھی قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ، اور زینب۔ پھر علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام سے شادی کی، اور زینب کی شادی ہوئی ابو العاص بن ریبعہ سے، اور وہ بنی امیہ سے تھا۔ اور عثمان بن عفان کی شادی ہوئی ام کلثوم سے اور وہ ان میں داخل نہ ہوا حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔ پھر اس کی جگہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی شادی رقیہ سے کردی، پھر رسول الله ص کو اولاد ملی ام ابراہیم سے، اور وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔
سند کی تحقیق:
روایت معتبر الاسناد ہے۔
تهذيب الأحكام جلد: 3صفحہ: 333
5-ثبوت:
وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وآله وَشِيجَةَ رَحِم مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.
امام علی علیہ السّلام نے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے کہا: ابو قحافہ کا بیٹا اور خطاب کا بیٹا زیادہ افضل نہیں تھے نیک عمل کے لحاظ سے تم سے، اور تم ان دونوں سے زیادہ قریب تھے رسول الله ص کے بطور نسبت، اور تم داماد ہونے کی وجہ سے بھی ان سے تعلق رکھتے ہو جو کہ وہ دونوں نہیں رکھتے تھے۔
قرب الإسناد، رقم الحديث: 29
6-ثبوت:
حدثنا أبي، ومحمد بن الحسن رضي الله عنهما قالا: حدثنا سعد بن - عبد الله، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن علي بن - أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة القاسم والطاهر وهو عبد الله، وأم كلثوم، ورقية، وزينب، وفاطمة. وتزوج علي ابن أبي طالب عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن الربيع وهو رجل من بني أمية زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم فماتت ولم يدخل بها، فلما ساروا إلى بدر زوجه رسول الله صلى الله عليه وآله رقية. وولد لرسول الله صلى الله عليه وآله إبراهيم من مارية القبطية وهي أم إبراهيم أم ولد.
ابو بصیر سے روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ کو خدیجہ علیہا السلام سے قاسم اور طاہر پیدا ہوئے اور وہ عبد الله ہے۔ اور ام کلثوم اور رقیہ اور زینب اور فاطکہ۔ اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شادی فاطمہ سے ہوئی اور ابو العاص بن ربیع کی شادی زینب سے ہوئی اور وہ بنو امیہ سے تھا۔ اور عثمام بن عفان کی شادی ہوئی ام کلثوم سے تو وہ فوت ہو گئی دخول سے پہلے۔ تو جب وہ بدر گئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ نے اس کی شادی رقیہ سے کردی۔ اور رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ کو ماریہ قبطیہ سے ابراہیم پیدا ہوئے۔
سند کی تحقیق:
صحیح الاسناد۔
نہج البلاغہ رقم الخطبہ: 164
7-ثبوت:
حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهِما الْسَّلام) قَالَ لَمَّا مَاتَتْ رُقَيَّةُ ابْنَةُ رَسُولِ الله صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه قَالَ رَسُولُ الله صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه الْحَقِي بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَأَصْحَابِهِ.
ابی بصیر نے روایت کیا ان میں سے ایک (امام صادق یا باقر) علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا: جب رسول الله ص کی بیٹی رقیہ کی وفات ہوئی، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے صالح سلف سے جاکر جڑو عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسکے أصحاب سے۔
الخصال صفحہ: 404
8-ثبوت:
عَنْهُ عَنِ السِّنْدِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِي مَرْيَمَ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أُمَامَةَ بِنْتَ أَبِي الْعَاصِ وَ أُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ كَانَتْ تَحْتَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع بَعْدَ فَاطِمَةَ.
ابی مریم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ امامہ بنت ابی العاص جنکی والدہ زینت بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تھیں، اور وہ علی بن ابی طالب کی بیوی تھیں فاطمہ کے بعد۔
اصول الكافی جلد: 3صفحہ: 241
9-ثبوت:
مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُکَیْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ إِلَی عَلِیٍّ ع أَنْ یَتَزَوَّجَ ابْنَةَ أُخْتِهَا مِنْ بَعْدِهَا فَفَعَلَ.
زرارہ سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ وہ ان کی بہن کی بیٹی سے شادی کرلیں انکے بعد، تو امام علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔
سند کی تحقیق:
صحیح الاسناد، رجالھم ثقات
تهذيب الأحكام جلد: 9صفحہ: 241
10-ثبوت:
حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد رضي الله عنه قال: حدثنا محمد بن الحسن الصفار، عن أحمد بن محمد بن خالد قال: حدثني أبو علي الواسطي، عن عبد الله بن عصمة، عن يحيى بن عبد الله، عن عمرو بن أبي المقدام، عن أبيه، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وآله منزله فإذا عائشة مقبلة على فاطمة. وإن خديجة رحمها الله ولدت مني طاهرا وهو عبد الله وهو المطهر، وولدت مني القاسم وفاطمة ورقية وأم كلثوم وزينب وأنت ممن أعقم الله رحمه فلم تلدي شيئا.
امام جعفر نے فرمایا:
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر داخل ہوئے تو عائشہ، فاطمہ کی طرف روبرو تھیں۔رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلا شبہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے ولادت دی: طاہر کو، عبد اللہ کو، اور وہ مطہر ہے، اور مجھ سے قاسم کو ولادت دی، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم، اور زینب کو ولادت دی، اور تم ان میں سے جن کے رحم کو الله نے بانجھ کیا ہے، تو تم کوئی چیز ولادت نہیں دو گے۔
سند کی تحقیق:
رجالھم ثقات۔
اصول الكافی جلد:5صفحہ: 555
11-ثبوت:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عَلِيٍّ عَنْ أُمَامَةَ بِنْتِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعٍ وَ أُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ قَالَتْ أَتَانِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَهْرِ رَمَضَان
ابو بصیر نے فاطمہ بنت علی سے جنہوں نے امامہ بنت ابی العاص بن ربیع سے روایت کی، اور ان کی والدہ زینت بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تھیں، کہا: امیر المومنین میرے پاس شہر رمضان میں آئے۔
سند کی تحقیق:
صحیح الاسناد
الخصال صفحہ: 404 ، 405
12-ثبوت:
وَهَذَا الْحُسَيْنُ خَيْرُ النَّاسِ خَالًا وَخَالَةً خاله القاسم بن رسول الله وخالته زينب بنت محمد رسول اللہ وخاله في الجنة وخالته في الجنة.
رسول الله ص نے فرمایا: یہ حسین ہیں جو لوگوں میں بہترین ہیں ماموں اور خالہ کے لحاظ سے اور ان کے ماموں قاسم بن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان کی خالہ زینب بنت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں،اور ان کے ماموں جنت میں ہیں اور ان کی خالہ جنت میں ہیں۔
سند کی تحقیق:
سندہ صحیح
اصول کافی الكافی جلد: 6صفحہ: 369
13-ثبوت:
وروي أن أمير المؤمنين عليه السلام دخل بفاطمة عليها السلام بعد وفاة أختها رقية زوجة عثمان.
روایت ہوا ہے کہ امیر المومنین فاطمہ میں دخول کیا ان کی بہن رقیہ، عثمان کی بیوی کی وفات کے بعد۔
الطرائف جلد: 1صفحہ: 119 ، 120
14ثبوت:
امام مھدی کے نائب کا بیان:
كم بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ فقال: أربع، قال: فأيهن أفضل؟ فقال: فاطمة
حسین بن روح (نائبِ امام ) سے پوچھا گیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی بیٹیاں تھیں؟ انہوں نے کہا چار، پوچھا گیا کہ سب سے افضل کونسی تھیں؟ انہوں نے کہا فاطمہ سلام اللہ علیہا۔
الامالی للطوسی رقم: 47
15-ثبوت:
وَ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ وَ هُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَ عِشْرِینَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ الْقَاسِمُ وَ رُقَیَّةُ وَ زَیْنَبُ وَ أُمُّ کُلْثُومٍ وَ وُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَ الطَّاهِرُ وَ فَاطِمَةُ وَ رُوِیَ أَیْضاً أَنَّهُ لَمْ یُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلَّا فَاطِمَةُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس اور کچھ سال تھی، تو بعثت سے قبل انکو ان سے اولاد میں قاسم اور رقیہ اور زینب اور ام کلثوم ملے اور بعثت کے بعد طیب اور طاہر اور فاطمہ علیہا السلام، اور روایت کی گئی ہے کہ انکی کوئی اولاد نہ ہوئی بعثت کے بعد سوائے فاطمہ علیہا السلام۔
الغيبتہ للطوسی جلد: 1صفحہ: 409
16- ثبوت:
أن زينب ورقية كانتا ابنتى رسول الله صلى الله عليه وآله والمخالف لذلك شاذ بخلافه.
زینب اور رقیہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں میں سے دو ہیں اور اس بات کا مخالف شاذ ہے اپنی مخالفت میں۔
اصول الكافی جلد: 1 صفحہ: 439
17- ثبوت بمعہ تصدیق:
شیخ طوسی نے مبسوط میں ، ابن شہر آشوب نے مناقب آل أبي طالب میں، شیخ عباس قمی نے منتهي الآمال میں، علامہ مجلسی نے حیات القلوب میں اور بحار الأنوار میں بہت سی مختلف روایات اس ضمن میں جمع کی ہیں، اور دیگر علمائے شیعہ نے یہی ذکر کیا ہے۔ ایک بیٹی کی بات جو آج پاک و ہند میں رائج بھی ہے یہ سب سے پہلے علی بن احمد کوفی نے ایجاد کی کہ یہ خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں، اس کو ابن شہر آشوب نے بدعت کہا ہے:
والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة
أخت خديجة
یہ بات بدعت ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں ہالہ کی بیٹیاں تھیں جو کہ خدیجہ کی بہن تھیں۔
المسائل العكبريہ صفحہ: 120
18-ثبوت:
لا ريب أن زينب ورقية كانتا ابنتي النبي صلى الله عليه وآله، والبدع الذي قال هو كتاب أبي القاسم المذكور
شیخ تستری نے لکھا ہے کہ اس بات میں شک نہیں کہ زینب اور رقیہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں تھیں۔ اور یہ بات بدعت ہے جو کہ ابو القاسم (الكوفی) کی کتاب میں مذکور ہے۔
مناقب آل أبی طالب جلد: 1صفحہ: 138
نیز ابو القاسم الکوفی علی بن محمد کے متعلق شیعہ کتب رجال میں ہے کہ وہ ایک غالی تھا اور کذاب تھا، چوتھی صدی ہجری میں وفات پاگیا تھا۔ دیکھئے الفهرست للطوسی، رجال النجاشی، معجم رجال الحديث وغیرہ۔
قاموس الرجال جلد: 9صفحہ: 450
توضیح الکلام:
اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن نے بنات یعنی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا ذکر کیا ہے، شیعہ کتب سے با کثرت احادیث ملتی ہیں،چند ایک کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ مباہلہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لے کر گئے تھے ،لہذا وہی اکلوتی بیٹی ہیں۔ مباہلہ کا واقعہ دس ہجری میں ہوا جبکہ باقی بیٹیاں تب تک وفات پا چکی تھیں، دوسری طرف کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کرنے گئے ہوں، مباہلہ کرنے تب جاتے اگر کوئی سامنے آتا ، کوئی سامنے آیا ہی نہیں ، لہذا یہ اعتراض باطل قرار پایا۔
19۔ثبوت:
کلینی کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ میں لکھتا ہے:
وتزوج الخدیجتہ وہو ابن بضع وعشرین سنتہ فولدہ منھاقبل مبعثہ القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاہر وفاطمة علھا السلام.
نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔
اصول کافی صفحہ:439 ، تہران،ایران
20-ثبوت
شیعہ محدث عبدا ﷲ بن جعفری الحمیری لکھتا ہے:
ولد لرسول اﷲ من خدیجتہ القاسم والطاہر وام کلثوم رقیتہ وفاطمة وزینب وتزوج علی عليہ السلام فاطمة علیھا السلام وتزوج بن الربیع وھو من نبی امیتہ زینب وتزوج عثمان بن عفان ام کلثوم ولم یدخل بطا حتی ھلکت وزوجہ رسول اﷲ ﷺ کانھا رقیة
حضرت خدیجتہ الکبری ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی اولاد القاسم، الطاہر ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب ؓ ،فاطمہ نے علی علیہ السلام سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم فوت ہوگئیں پھر رسول اﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان سے کر دیا۔
حیات القلوب جلد :2 صفحہ: 718،منتھی الآمال جلد:1 صفحہ:108
توضیح الکلام۔
اس روایت واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجتہ الکبریٰ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ يہ جس کے مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی تصدیقی مہر ثبت ہوتی تھی۔
21-ثبوت
شیعہ امام ، محدث شیخ صدوق ابن بابويہ لکھتا ہے:
ان خدیجة رحمھا اﷲ و لدت منی طاہر اوھو عبد ﷲ و ھو المطھر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب.
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، ﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد اﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم اور زینب پیدا ہوئيں۔
کتاب الخصال للصدوق صفحہ:375
22-ثبوت
شیعہ امام ، محدث باقر مجلسی لکھتا ہے:
پس اول فرزند کہ از برائے او بہم رسید عبد اﷲ بود کہ اور بعبد اﷲ وطیب طاہر ملقب ساختند و بغد از قاسم متولد شدو بعضے گفتہ کہ قاسم ازعبداﷲ بزرگ توبود چہار دختراز وبرائے حضرت آورد زینب و رقیہ ان کلثوم وفاطمہ ۔
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے جناب رسول کرےم ﷺ کے ہاں پہلے بیٹے عبدا ﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبدا ﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہا۔
حیات القلوب جلد:2صفحہ:723
23-ثبوت
شیعہ مؤرخ یعقوبی لکھتا ہے:
وتزوج رسول ﷲ خدیجتہ بنت خویلد ولہ خمس وعشرون سنتہ وقیل تزوجھا ولہ ثلاثون سنتہ وولدت لہ قبل ان یبعث القاسم ورقیہ وزینب وام کلثوم وبعد ما بعث عبداﷲ وہو الطیب وطاہر لانہ ولد فی الاسلام وفاطمہ۔
حضور اکرم ﷺ نے جب خدیجہ الکبری سے نکاح فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق30سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبد اﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے اور فاطمہ رضی اﷲ عنما متولد ہوئیں۔
تاریخ یعقوبی جلد:2 صفحہ:20
24-ثبوت
سیدنا علی المرتضیٰ کے فرمان کی وضاحت:
وانت اقرب الی رسول اﷲ ﷺ شیجتہ رحم منہما وقدنلت من صہرہ مالم ینا لا۔۔۔۔الخ
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو رسول ﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی سرکار طیبہﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
نہج البلاغہ جلد:1 صفحہ:303،مطبوعہ تہران
25-ثبوت
شیعہ مؤرخ عبداﷲ مامقانی لکھتا ہے:
وولدت لہ اربع بنات کلہن ادرکن الاسلام وھاجرین وہن زینب وفاطمتہ و رقیہ و ام کلثوم.
خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں پیداہوئیں، تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم صلوٰت اللہ علیہا ہیں۔
تنقیح المقال جلد:3صفحہ:73طبع بیروت لنبان
توضیح الکلام:
بحمد اللہ تعالیٰ ہم نے شیعہ مذہب کے آئمہ، محدثین اور مورخین سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حقیقی اولاد میں چار بیٹیاں ہونے کا مسئلہ بلکل صحیح ہے، ثابت ہے، تمام شیعی اعتراضات کے جوابات بھی دیے ہیں اور اشکالات کی بھی وضاحت کی ہے، شیعہ کے جھوٹ بھی واضح کیے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج، اولاد ،آل، اصحاب کی عزت و تکریم کی توفیق عطاء فرمائے،اور ان سب پر سلامتی نازل فرمائے۔
No comments
Post a Comment