کیا شیعہ مؤمن ہیں، مؤمن اور مسلمان میں فرق
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على عبده ورسوله نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
شیعہ علماء، اور ذاکرین عام طور پر اپنے آپ کو اور اپنی عوام کو مؤمن کہہ کر کر پکارتے ہیں،اور باقی اہل سنّت کو مؤمن نہیں سمجھتے۔اور یہ کہتے ہیں کہ مسلمان تو سب ہی ہیں مگر جو لوگ اہل بیت سے محبت کرتے ہیں صرف وہ ہی مؤمن ہیں۔حالانکہ شیعہ خود:
اہل بیت کے گستاخ ہیں۔
اہل بیت کے دشمن ہیں۔
اہل بیت کے قاتل ہیں۔
قرآن کے منکر ہیں۔
گستاخ رسول ہیں۔
گستاخ انبیاء علیہم السلام ہیں۔
گستاخ امہات المومنین ہیں۔
گستاخ صحابہ ہیں۔
بد اخلاق و بد کردار ہیں۔
زکوٰۃ کے منکر ہیں۔
اس کے باوجود خود کو مؤمن اور باقی سب کو غیر مؤمن کہتے ہیں، شیعہ کی تمام خرافات کو جاننے کے لیے دیکھئیے ماہنامہ منہاج الحدیث میں رقم الحروف کے گزشتہ مضامین۔
مؤمن کون ہیں، ان کی صفات کیسی ہوتی ہیں، ان کا کردار کیسا ہوتا ہے یہ ساری تفصیلات ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کیجیے کیا شیعہ مؤمن ہیں؟
لفظِ مؤمن کی تصریح:
کسی کا باطنی ایمان لفظِ مؤمن سے ظاہر ہوتا ہے، اور ظاہری ایمان لفظِ مسلم سے ظاہر ہوتا ہے، ایمان اور اسلام کے درمیان فرق ہے اظہار اور اخفاء کا
جس کا مختصراً خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کا تعلق باطن سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے، یعنی ایمان عقائد و نظریات مثلاً اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان، رسولوں کی رسالت پر ایمان ، فرشتوں کے وجود پر ایمان، عذاب و ثواب قبر اور یوم آخرت پر ایمان، جب کہ اسلام ظاہری اعمال مثلاً زبان سے اقرار، نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور دیگر قولی فعلی مالی عبادات کا سر انجام دینا اور تمام امور بجا لانے کا نام ہے۔ اس وضاحت سے واضح ہوتا ہے کہ مؤمن دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے، ایمان اور اسلام، انسان جب مکمل طور پر امور الٰہی پر عمل پیرا ہوتا ہے تو اس وقت وہ مؤمن ہی کہلاتا ہے۔جبکہ شیعہ اس مجموعہ میں داخل ہی نہیں ہیں تو پھر مؤمن کیسے؟
اہل بیت کے گستاخ ہیں۔
اہل بیت کے دشمن ہیں۔
اہل بیت کے قاتل ہیں۔
قرآن کے منکر ہیں۔
گستاخ رسول ہیں۔
گستاخ انبیاء علیہم السلام ہیں۔
گستاخ امہات المومنین ہیں۔
گستاخ صحابہ ہیں۔
بد اخلاق و بد کردار ہیں۔
زکوٰۃ کے منکر ہیں۔
کیا یہ سب اوصاف شیعہ میں نہیں پائے جاتے؟ علمائے اہل الحدیث نے، بالخصوص علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے الشیعہ و السنہ، الشیعہ و القرآن، الشیعہ و اہل البیت میں۔ والحمدللہ۔
توضیح الکلام:
یعنی ایمان اور اسلام میں حقیقت میں فرق نہیں ہے، تسلیم کرنے یعنی اقرار کے لحاظ سے فرق ہے، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی تمام تعلیمات کو دل سے ماننا اور دل میں ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے،اور پھر اسی دل سے مانے ہوئے ایمان کا اظہار کرنا ، اعلان کرنا اسلام کہلاتا ہے۔
ایمان کا سفر دل سے شروع ہوکر ظاہری اعمال پر مکمل ہوتا ہے اور اسلام کا سفر ظاہر سے شروع ہوکر صالح اعمال پر ختم ہوتا ہے۔ البتہ ایمان اور اسلام کے حامل ہونے کے لحاظ سے انسان میں فرق ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ظاہر میں ایمان کا اقرار کرے لیکن دل میں ایمان نہ ہو، تو وہ مؤمن نہیں کہلائے گا۔ کیونکہ اس کے دونوں جزو مکمل نہیں ہیں۔ جس طرح شیعہ روافض ہیں۔
اہل بیت کے گستاخ ہیں۔
اہل بیت کے دشمن ہیں۔
اہل بیت کے قاتل ہیں۔
قرآن کے منکر ہیں۔
گستاخ رسول ہیں۔
گستاخ انبیاء علیہم السلام ہیں۔
گستاخ امہات المومنین ہیں۔
گستاخ صحابہ ہیں۔
بد اخلاق و بد کردار ہیں۔
زکوٰۃ کے منکر ہیں۔
اختصار کے ساتھ ہم نے چند ایک ہی ذکر کیے ہیں ، ان چند امور پر عمل نہ کرنے اور باقی کا انکار کرنے کی وجہ سے شیعہ ایمان کی کئی جزوِیات کے منکر ہی نہیں بلکہ گستاخ بھی ہیں لہذا مؤمن کا اطلاق شیعہ پر ممکن ہی نہیں ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی ہے:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ .
دیہاتیو نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بخشنے والا ہے۔
الحجرات :14
سورہ حجرات کی ان آیات میں ظاہری فرماں برداری دکھانے والوں کے لیے مسلمان کا لفظ اختیار کیا گیا ہے، اور ایمان کی نفی کر دی گئی ہے کہ دلوں میں ایمان نہیں ہے،چنانچہ اہل کوفہ شیعہ لوگ منافق تھے،جس کی تفصیل یہ ہے:
1-سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دھوکا دیا۔
2-سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دھوکا دیا۔
3- سیدنا حسین کو دھوکا دیا۔
باقی امور بھی ہم ثابت کر چکے ہیں شیعہ جن کے منکر ہیں، مومن تقیہ باز نہیں ہوتا جبکہ شیعہ کا نوے حصہ دین ہے ہی تقیہ میں، تفصیل کے لیے دیکھیے ماہنامہ منہاج الحدیث میں رقم الحروف کا مضمون بنات اربعہ، مؤمن واضح ہوتا ہے لہذا شیعہ مؤمن کے اعجاز پہ فائز نہیں ہوتےہو سکتے۔
اسلام اور ایمان میں فرق ہے اس بارہ میں علمائے کرام نے عقائد کی کتب میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں، ان تفصیلات کا مختصراً خلاصہ یہ ہے۔
جب یہ الفاظ، ایمان اور اسلام الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسلام ہوتا ہے، تو اس وقت لفظ اسلام ہو یا ایمان ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا، المختصر جو مؤمن ہوتا ہے وہ مسلمان بھی ضرور ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان (ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنے والے) کا مؤمن ہونا لازم نہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے شیعہ مذہب کی طرح تقیہ کیا ہو کوئی ظاہری طور پر زبان سے تو کلمہ اور نماز پڑھتا ہو ، لیکن دل میں کفریہ عقائد رکھتا ہو،جیسا کہ شیعہ کے عقائد ونظریات ہیں۔
اور اگر یہ دونوں الفاظ یعنی اسلام اور ایمان ایک ہی سیاق اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے دل اور ضمیر کے اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جیسا کہ قلبی عبادات، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان، اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ کتابوں پر ایمان، اور یوم آخرت پر ایمان وغیرہ۔
جبکہ صرف اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں بعض اوقات جن کے ساتھ قلبی ایمان ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا،تو دوسری صورت میں ان ظاہری اعمال کو کرنے والا یا تو منافق ہوتا ہے یا پھر منافق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایمان کمزور ہوتا ہے، وہ مؤمن کہلانے کا حق نہیں رکھتا جیسا کہ شیعہ ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لفظ "ایمان" کو بعض اوقات اسلام یا عمل صالح کے ساتھ ملا کر ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ وہ بالکل علیحدہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات لفظ "ایمان" کو اسلام کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ:
اسلام کیا ہے؟
ایمان کیا ہے؟
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ.
بے شک مسلمان مرد اور مسلمان خواتین، اور مومن مرد اور مومن خواتین : الاحزاب:35
دوسری جگہ فرمایا:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ.
دیہاتیوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ الحجرات:14
مزید فرمایا:
فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ،فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ.
تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔
الذاريات:36
ان آیات میں جب ایمان کو اسلام کے ساتھ ذکر فرمایا تو ،اسلام سے مراد ظاہری اعمال لیے، مثلاً: احکام رب العالمین کا اقرار، نماز، زکاۃ، روزہ، حج وغیرہ ، اور ایمان سے مراد قلبی امور لیے ، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان، تاہم جب ایمان کا لفظ اکیلا ذکر کیا جائے تو اس میں اسلام اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے:
عن أبي هريرة :الإيمانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أو بِضْعٌ وسِتُّونَ شُعْبَةً: فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: لا إله إلا الله، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ.
ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کہنا، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے۔
مجموع الفتاوى جلد 15 صفحہ:13-15
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تو لوط علیہ السلام کی بیوی کو بھی مؤمن کہا گیا ہے اور وہ قرآن مجید کی یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں اس کی وضاحت ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں۔
فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ،فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ.
تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا
الذاريات:36
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لوط علیہ السلام کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی، تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی، یہی وجہ ہے کہ اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچار کیا گیا، تو یہی حال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود منافقین کا ہے کہ وہ ظاہری طور پر آپ تو صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمان تھے لیکن باطن میں مومن نہیں تھے"
جامع المسائل جلد:6 صفحہ:221
ہم یہاں پہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی اس وضاحت میں تھوڑا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ جس وقت شیخ الاسلام نے اس آیت کی وضاحت کی اس وقت رافضی اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ ہم مؤمن ہیں، جس طرح رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے بظاہر اسلام قبول کر لیا اور ظاہری اعتبار سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام احکامات کی پاپندی شروع کردی لیکن اندر ہی اندر وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض اور عناد کی عاد میں جل رہا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا اس نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لیے یہودیوں اور مشرکین مکہ سے رابطے استوار رکھے اور غزوہ بدر اور احد میں نہ خود حصہ نہیں لیا بلکہ اندر ہی اندر صحابہ کو بھی جہاد پہ جانے سے روکتا رہا۔ یہی منافق شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی عائشہ بنت ابی بکر پر تہمت لگانے میں بھی پیش پیش رہا۔
آپ شیعہ کا اور اس منافق کا موازنہ کریں، یہ شیعہ صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں، ان تہمتیں لگاتے ہیں،صحابہ کو بزدل کہتے ہیں،امہات المومنین کی توہین و گستاخیاں کرتے ہیں ، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دھوکا دے کر شہید کردیا،پھر سیدنا حسین ابنِ علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی کوفہ بلا کر بے یارو مددگار چھوڑ دیا،المختصر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شیعہ بھی لوط علیہ السلام کی بیوی کی طرح تھے، مؤمن نہیں تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں کہ:
"کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اور ان آیتوں کو باہمی طور پر متعارض قرار دیا۔
حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے وہاں پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی لوط علیہ السلام کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جنہیں نکال لیا گیا اور نجات پا گئے تھے۔
بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ظاہری طور پر تو اپنے خاوند کے ساتھ تھی لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی، اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے بارے میں مطلع کر دیا، جیسے کہ اس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ:
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا
التحريم:10
اور جس خیانت کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاک دامنی سے متعلق نہیں تھی۔
المختصر مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی مومن نہیں تھی، نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات دے دی گئی، لہذا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان : (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ) تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا "الذاريات:36"میں شامل نہیں ہے، اور چونکہ وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی اس لیے وہ اللہ تعالی کے فرمان : (فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ "الذاريات:36" میں شامل ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم کسی بھی چیز کو بیان کرنے میں انتہائی باریکی اختیار کرتا ہے کہ جب لوگوں کو عذاب سے بچانے کا ذکر کیا تو وہاں پر مؤمنین کا لفظ بولا، لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ بولا۔
مجموع الفتاوى جلد:7 صفحہ:472-474
مومن کا مادہ امن ہے اور امن بے خوفی یا اطمنان کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر امنتم کے الفاظ آئے ہیں جس کا معنی ہے جب تم امن میں ہوجاؤ یعنی خوف ختم ہو جائے،مومن ایسے شخص کو کہتے ہیں جو خود بھی پرامن ہو اور دوسروں کے امن کی بھی ضمانت دینے والا ہو۔ اور ایسا تبھی ممکن ہے کہ جب انسان اللہ کی آیات پر ایمان لے آئے کیونکہ اس کے بغیر دلوں کا سکون ممکن نہیں۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب
ُالرعد: 28
مسلم کا مادہ سلم ہے اور سلم سلامتی کو کہتے ہیں اور اسی سے لفظ مسلم بنا ہے جس کا معنی سلامتی سے رہنے والا اور سلامتی دینے والا۔
مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
البقرة: 112
جس نے اللہ کی خاطر اپنا سرجھکا دیا اور وہ حسن سلوک کرنے والا ہوتو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے، ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
لہذا سلامتی دینے والا ہی سر جھکاتا ہے سرکش کبھی بھی سر نہیں جھکاتے بلکہ سر اٹھا کر فساد کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے سلامتی دینے والوں کو ایمان لانے کی ترغیب دی ہے
توضیح الکلام:
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ شام،یمن میں جتنا ظلم ہو رہا ہے وہ سب شیعہ کر رہے ہیں اور ظالم مؤمن کیسے ہو سکتا ہے.
اسلام کے اول عہد صحابہ سے لے کر آج تک ہر دور اور ہر زمانہ میں مسلمانوں کا متفقہ طور پر اجماعی عقیدہ چلا آیا ہے کہ کتاب الٰہی ہر قسم کے حوادثات و تغیرات اور تبدیلیوں کے شائبوں لغرزشوں سے محفوظ ومامون ہے ۔ رُوئے زمین پر صرف شیعہ ایک ایسی مبہوت اور گمراہ قوم ہے جس کے زعم باطل کے مطابق قرآن کریم اپنی اصلی شکل وصورت میں ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ اس کا کثیر حصہ زمانہ کے دست برد ہو چکا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئیے ماہنامہ منہاج الحدیث ،الغرض شیعہ کوئی مستقل مذہب نہیں بلکہ انتقامی جذبہ پر مبنی ایک منفی تحریک کا نام ہے جس کی بناء شمع رسالت کے جانثاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے عداوت و دشمنی پر قائم ہے یہ وہی عظیم ہستیاں جنہوں نے غلبہ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے شرق و غرب میں اسلامی پرچم کو لہرایا ان کے ہاتھوں دشمنان اسلام کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔بالخصوص یہود و نصاری نے بری طرح ذلت آمیز شکستیں کھائیں عیسائیوں نے صلیبی جنگیں لڑ کر انتقامی جذبہ کو ٹھنڈا کیا مگر یہودیوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میدان کا حق و باطل میں مسلم مجاہدین کا مقابلہ کر سکتے اس لیے انھوں نے زیر زمین سازشوں کے جال پھیلا نے شروع کر دئیے جس کے نتیجہ میں ابتداء سبائی ٹولہ نمودار ہوا ۔ان لو گوں نے عمائدین اسلام کے بارے میں عوام کے اذہان میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم شروع کردی کاتبین وحی حفاظ قرآن اور اس کی نشر واشاعت اور حفاظت کرنے والوں کے اعتماد کو مجروح کرنے کی سازش کی، جن رافضیوں کا ماضی اتنا گندا ہے کیسے مؤمن ہو سکتےہیں؟
اس سے ان کا اولین مقصد اسلام کے بنیادی ماخذ قرآن مجید سے لوگوں کا اعتماد مجروح کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ پر اعتماد کو ٹھیس پہنچانا تھا تاکہ در پردہ متلاشیان حق کی راہیں مسدود ہو سکیں جب اصلی ہیئت میں نہ کتاب رہی ہے اور نہ سنت ،توصحیح راہنمائی کہاں سے حاصل ہو گی، مؤمن اور فاسق کی تفریق کرنے والی کتاب اللہ کو ہی مجروح بنا دیا تو فیصلہ کیسے ہو گا کہ مؤمن کون ہے اور فاسق کون ہے؟
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام:
المختصر سازشی رافضی ٹولہ نے ذخیرہ احادیث کے مقابلہ میں اقوال آئمہ اہل بیت کے نام سے کتابیں مرتب کیں ان خود ساختہ کتب کو اہل بیت کی طرف منسوب کر کے صحابہ کے اوپر تبراء بازی کا محاذ کھول دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بد نام کرنے کے لیے خانوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیتوں کے ذریعہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اختلافات،اور ان کے اہل بیت پر مظالم اور حق تلفیوں کے افسانے اس طریقے سے مشہور کئے کہ سادہ لوح مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ایسے گروہ کے بارہ میں مسلمان کہنا بھی درست نہیں یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ ان کو مؤمن کہا جائے۔
No comments
Post a Comment