ﺗﺤﺮﯾﻒِ ﻗﺮﺁﻥ کا عقیدہ شیعہ کتب
حیدر علی السلفی
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على عبده ورسوله نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
اما بعد!
قال الله تعالى:
ذلك الكتاب لا ريب فيه
شیعہ مذہب کہ بارہ میں ہمارے اکثر اہل السنہ والجماعتہ سے تعلق رکھنے والے بھائی بہت کم جانتے ہیں کہ شیعہ کے ہاں کلامِ مجید کی کتنی قدر و منزلت ہے۔شیعہ کا قرآن مجید کے متعلق کیا نظریہ ہے۔ قرآن مجید میں تحریف ہوئی، یا قرآن مجید محفوظ ہے، اس بات کی وضاحت کے لیے شیعہ کی کتب سے تفصیلی بحث آگے آ رہی ہے۔بحث سے قبل ایک وضاحت بہت ضروری ہے۔عام طور پر شیعہ کو کافر کہنے والوں کو فرقہ پرست، فسادی ،اتحاد بین المسلمین کے دشمن کہا جاتا ہے۔
میڈیا پر بیٹھ کر چار داموں کے لالچ میں آ کر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے اور شیعہ کو فروغ دینے کے لیے باتیں بنانے والے شیعہ کے عقائد ونظریات سے ناواقف ہیں، شیعہ اہلبیت کے دشمن، قرآن مجید کے دشمن، خلفاء کے دشمن، کعبتہ اللہ کے دشمن ہیں ان کا دفاع کرنے والے ذرا دل تھام کر ان کے قرآن مجید کے متعلق عقائد ملاحظہ فرمائیں۔
ﻗﺮﺁﻥ مجید ﺟﺲ کے بارہ میں ﻣﺴﻠﻤﺎنوں ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨوئی ، ﻗﺮﺁﻥ، مجید ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﻔﺮ ﮨﮯ، اہل السنہ یعنی اہل الحدیث ، ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﻢ ﮨﮯ،اس کے برعکس ﺷﯿﻌﮧ ﻗﺮﺁﻥ مجید ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻗﺮﺁﻥ مجید ﺳﮯ ﺑﮩﺖ آیات ﻧﮑﺎﻝ لی گئی ہیں۔
شیعہ کے دعویٰ کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے
1- قرآن نامکمل ہے
2- قرآن میں اضافہ ہوا ہے
3- قرآن میں تبدیلی الفاظ ہے
4- قرآن میں تبدیلی حروف
5- قرآنی آیات،سورہ،کلمات کی ترتیب میں تبدیلی ہے۔
آج کل اکثر شیعہ کہتے ہیں کہ ہم تحریف قرآن مجید کے قائل نہیں ہیں،یہ جملہ وہ تقیہ"جھوٹ" کی بنیاد پر کہتے ہیں ،تقیہ "جھوٹ" کا شیعہ کے نزدیک کتنا مقام ہے ،اصول کافی میں لکھا ہے
"فرمایا امام ابو عبداللہ جعفر صادق نے کہ تقیہ میں نوے حصہ دین ہے،جو وقت ضرورت تقیہ نہ کرے اس کا دین نہیں ،اور تقیہ ہر شے میں ہوتا ہے"
اصول کافی جلد 4 صفحہ:140، کتاب الایمان والکفر ،باب التقیہ رقم الحدیث:2
اب عام مسلمان بھائیوں کو معلوم نہیں ہے کہ یہ تقیہ کیا ہوتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ایسے سمجھ لیں کہ انسان ضرورت کے وقت اپنا بات تک بدل لے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس لیے جب شیعوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ قرآن مجید کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں، تب وہ تقیہ کر کے تسلیم کر لیتے ہیں، اور جب قرآن کی آیات سامنے رکھی جاتی ہیں تب انکار کر دیتے ہیں۔
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں، زینب،رقیہ، ام کلثوم،فاطمہ سلام اللہ علیہا ، تب یہ انکار کر دیتے ہیں، یہ صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی مانتے ہیں، جب کہ قرآن مجید کیا کہتا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
سورہ الاحزاب :59
اے نبی
اپنی بیویوں ،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے چہروں پر حجاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان، مومن عورتوں کو الگ مخاطب کیا، ازواج مطہرات کو الگ مخاطب کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو الگ مخاطب کیا جمع کے صیغہ کے ساتھ، اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ اس بات پہ غلط ہیں، قرآن مجید کو نہیں مانتے، جو بات قرآن مجید کہتا ہے شیعہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کو ہی تحریف قرآن کہا جاتا ہے،تحریف قرآن شیعہ کے عقائد ونظریات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
اب آپ شیعہ کتب کی وہ عبارات ملاحظہ فرمائیں جن سے قرآن مجید کا انکار ثابت ہوتا ہے۔
معروف شیعہ عالم نوری طبرسی نے قرآن مجید کی تحریف پر تفصیلاً کتاب لکھی ہے جس کا نام "فصل الخطاب فی اثبات تحریف رب الارباب" ہے اس کتاب میں عقلی و نقلی دلائل سے قرآن مجید کو تحریف شدہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے،جو شیعہ اس کتاب کا انکار کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ اس عہد کے صرف پانچ شیعہ علماء کا ملعون نوری طبرسی پر اس کے جرم پر کفر کا فتویٰ دیکھائیں۔ کیونکہ تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔لیکن کسی کا فتویٰ نہیں ہے، کیونکہ اگر اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جاتا تو پھر ان کے عقیدہ کا کیا بنے گا جو ہم آگے ثابت کرنے والے ہیں۔
تحریف قرآن مجید کا جو شیعہ کا عقیدہ ہے اس کی وضاحت صدیوں پہلے شیخ الاسلام حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہے۔شیخ الاسلام حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ المتوفی456 ہجری فرماتے ہیں۔
"ومن قول الامامية كلها قديما وحديثا ان القرآن مبدل زيد فيه ماليس منه ونقص منه كثير و بدل منه كثير"
ہر دور میں سب امامیہ کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ قرآن میں رد بدل ہوا ہے اس میں کچھ اضافے ہیں جو اصل میں نہیں اور بہت ساری کمی و بیشی اور تبدیلی ہو ئی ہے ۔"
الملل والنحل جلد 4صفحہ:182
عیسائیوں کے تحریف قرآن کے شیعی دلائل سے کا رد کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن حزم رحمہ اللہ نے جواب دیا۔
"ان دعوى الشيعة ليست حجة على القرآن ولا على المسلمين لانهم ليسوا منا ولسنا منهم"
شعیہ کے دعویٰ کو دلیل کے طور پر قرآن اور مسلمانوں کے خلاف پیش نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ ان کا تعلق نہ ہمارے ساتھ ہے اور نہ ہمارا تعلق ان کے ساتھ ہے یعنی شیعہ مسلمان نہیں ہیں۔
الملل والنحل جلد 2 صفحہ:78
شیخ الاسلام ابن حزم رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے واضح ہوتا ہے کہ تحریف قرآن شیعہ کا ازل سے عقیدہ ہے ،ایسا عقیدہ ہے جس کا تذکرہ تمام شیعی کتبِ تفسیر، حدیث، فقہ،تاریخ اور عقائد وغیرہ میں دلائل و براہین کے ساتھ موجود ہے۔
شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ صحیح اور درست قرآن مجید اس وقت دنیا میں موجود نہیں ہے امام مہدی اسے لے کر غار میں چھُپ گئے ہیں بقول شیعہ ان کا ظہور اس وقت ہو گا جب ساری دنیا میں تین سو تیرہ پکے سچے شیعہ موجود ہونگے ۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ کی معتبر کتب "الاحتجاج للطبرسی، اصول کافی" میں لکھا ہے:
1-"يجتمع اليه من اصحابه عدة اهل بدر ثلث مأة وثلثة عشررجلا من اقاصى الارض ان قال فاذا اجتمعت له هذه العدة من اهل الاخلاص اظهر الله امره"
امام مہدی کے پاس اصحاب بدر کی گنتی برابر تین سوتیرہ مرد دنیا کے اطراف واکناف سے جمع ہو جائیں گے جب مخلصین کی تعداد ہذا جمع ہو گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان کی دعوت کو غلبہ بخشے گا ، وہ قرآن یعنی مصحف فاطمہ لے کر آئیں گے
الاحتجاج للطبرسی صفحہ :123 طبع ايران،اصول کافی جلد:2 صفحہ:433
ظاہری بات ہے جب قرآن مجید ان کے لاس ہے ، پھر وہ امام غائب زمانہ بھی ہیں اس کا کیا مطلب ہوا ؟شیعہ کے تحریف قران کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے
2-رافضی طبرسی لکھتا ہے:
"ان الاخبار الدالة على ذالك تزيد على الفى حديث و ادعى استفامتها جماعة كالمفيد و المحقق الدماد ،والعلامة المجلسي وغيرهم"
تحرف قرآن مجید پر ہزار احادیث دلالت کرتی ہیں، اور ان کے مشہور ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعت میں شیخ مفید ، محقق دماد اور باقر مجلسی ہیں
فصل الخطاب صفحہ: 251
اسی طبرسی نے مزید لکھا:
3-اصحاب امامیہ میں مشہور ہے کہ ان مشہور روایات کی صحت پر متواتر اتفاق ہے ایسا صراحتاً تحریف پر دلالت کرتا ہے
انوار نعمانیہ جلد:2 صفحہ:357
فصل الخطاب صفحہ: 31
4-عن سهل بن زيادة عن محمد بن سليمان عن بعض اصحابه عن ابى الحسن عليه االسلام "اي ابو الحسن الثانى علي بن موسى الرهنا المتوفى سنة206 ہجری" قال قلت له جعلت فداك انا نسمع الايات فى القرآن ليس هى عندنا كما نسمعها ولا نحن ان نقرأها كما بلغنا عنكم فهل نأتم فقال لا اقرأوا كما تعلمتم نسيجيئكم من يعلمكم"
"ہمارے متعدد اصحاب نے سہل بن زیاد سے اُس نے محمد بن سلیمان سے اُس نے اپنے بعض اصحاب سے اُس نے ابو الحس "یعنی ابوالحس ثانی علی بن موسیٰ رضا متوفی 206 ہجری " سے روایت کیا کہا میں نے اس سے کہا میں آپ پر قربان ہم قرآن میں آیات سنتے ہیں جو ہمارے ہاں "قرآن میں"ایسی نہیں جیسی کہ ہم سنتے ہیں اور نہ ہم ان کی اچھی طرح سے تلاوت ہی کرسکتے ہیں جس طرح کہ آپ سے ہمیں پہنچی ہیں تو کیا ہم گناہ کا کا م کرتے ہیں تو اس نے کہا نہیں جس طرح کہ تم نے سیکھا ہے پڑھتے رہو جلدی تمہارے پاس وہ آئےگا جو تمہیں تعلیم دے گا "
اصول کافی صفحہ :289، مطبوعہ ایران 1278 ہجری
توضیح
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ کلام شیعہ نے امام علی بن موسیٰ رضا رحمہ اللہ کے بارہ میں گھڑا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُن کے ہاں یہ فتوی ہے کہ جو اس طرح قرآن پڑھے کہ جس طرح لوگ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیکھتے ہیں وہ گناہ گار نہیں ہوتا ۔شیعہ کے خاص لو گ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ایک دوسرے کو بتاتے رہتے ہیں کہ اصل قرآن یہ نہیں بلکہ وہ اور ہے جو مو جو دہے یا ان کے ائمۃ اہل بیت کے پاس موجود تھا ان کے اس مزعومہ قرآن کے درمیان جسے وہ رازداری سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں اور تقیہ کے عقیدہ پر عمل کرتے ہو ئے اس کا بر ملا اظہار نہیں کرتے اور اس مصحف عثمانی کے درمیان وہی تقابل ہے جسے حسین بن محمد تقی نوری طبرسی نے اپنی کتاب "فصل الخطاب فى اثبات تحريف كتاب رب الارباب"میں جمع کیا ہے۔یہ کتاب شیعہ کے علماء کی سینکڑوں نصوص پر مشتمل ہے جو شیعہ کی معتبر کتب میں موجود ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ شیعہ قرآن میں تحریف پر پختہ ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ قرآن کے بارہ میں اُن کا عقیدہ لوگوں پر ظاہر ہو۔
امام جعفر صادق فرمان ہے:
5-لو ترك القرآن كما انزل لا لفيتنا فيه مسمين»
یعنی"اگر قرآن اس طرح چھوڑا جاتا جیسے نازل کیا گیا تھا تو اے مخاطب تو ہمیں اس میں نام بنام پاتا ۔"
فصل الخطاب صفحہ:216،طبع ایران
امام باقر کا فرمان ہے:
6-"لولا زيد فى القرآن ونقص ماخفى حقنا على ذى حجى"
امام باقر فرماتے ہیں اگر قرآن میں کمی یا اضافہ نہ گیا ہوتا توو ہمارا حق کسی ذی شعور پر پوشیدہ نہ رہتا ۔"
تفسیر صافی مقدمہ سادس صفحہ:25
6-کلینی نے اپنی الکافی میں باسند بیان کیا ہے :
"ان القرآن الذى جاء به جبرائيل عليه السلام الى محمد صلى الله عليه وسلم سبعة عشرالف آية"
"وہ قرآن جسے لے کر جبرائیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ سترہ ہزار آیات پر مشتمل تھا "
اصول کافی ،کتاب فضل القرآن جلد: 1صفحہ:634
جبکہ اس کے برعکس ابو علی طبرسی لکھتا ہے"اصل آیات کی تعداد:6236 ہے
تفسیر مجمع البیان طبرسی جلد 1 صفحہ:407
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دو تہائی قرآن پاک ہوا کی نذر ہو گیا اور موجودہ صرف ایک تہائی ہے کلینی نے باقاعدہ اپنی "کافی " میں اس بات کی صراحت کیا ہے اور اس کے اثبات کے لیے ایک مستقل تبویب قائم کی ہے "باب ذکر الصحیفہ والجفر والجامعۃ ومصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا" اس کے تحت جو روایت بیان ہے وہ ملاحظہ فرمائیں :
"پھر امام نے فر مایا ہمارے پاس مصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اور لوگوں کو کیا معلوم کہ مصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیا چیز ہے ،وہ مصحف ہے جو تمہارے قرآن سے تین گنا زیادہ اور اللہ کی قسم تمہارے اس قرآن کا ایک حرف بھی اس میں نہیں ہے"
بلکہ عبارت ہذا اس بات کی شاہد ہے کہ موجودہ مصحف کلی طور پر مصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مختلف ہے جس کا حجم مؤلف "کافی" نے ستر ہاتھ لمبا بیان کیا ہے ۔
اصول کافی کتاب الحجہ جلد:1 صفحہ:240٫239
7-حضرت امام جعفر صادق سے روایت:
سورہ طہ کی آیت نمبر : 115 کی آیت "وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا " جب نازل ہوئی تھی تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی، سیدہ فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور دوسرے ائمہ کرام کے نام بھی تھے۔
اصول کافی جلد: 1 صفحہ :262
8-حضرت امام جعفر سے روایت:
حضرت جبرائیل سورت المعارج کی آیات لے کر آئے تو اس میں حضرت علی کا بھی ذکر تھا۔
اصول کافی جلد 1 صفحہ: 265
9-حضرت امام جعفر سے مروی ہے:
حضرت جبرائیل جب سورہ طور لے کر آئے تو آیت : 47 میں آل محمد کے الفاظ تھے، سورت النساء کی آیات نمبر: 168,169,170 میں حضرت علی کا نام تھا۔
اصول کافی جلد 1 صفحہ 267٫266
10-سورت النساء کی آیت نمبر: 66 میں حضرت علی نام تھا۔ سورت الاسراء آیت نمبر: 89 میں حضرت علی کا نام تھا۔ سورت الکھف آیت نمبر: 29 میں آل محمد کے الفاظ تھے۔
اصول کافی جلد 1 صفحہ :267
11-ﺷﯿﺦ ﻃﻮﺳﯽ لکھتا ہے:
ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺻﻄﻔﯽٰ ﺁﺩﻡ ﻭ ﻧﻮﺣﺎً ﻭ ﺍٰﻝ ﺍﺑﺮﺍﮬﯿﻢ ﻭ ﺍٰﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺍٰﻝﻣﺤﻤﺪ ﮐﮯ ﻟﻔﻆ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ،ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ نہیں ہے
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد:2صفحہ:123
12- طوسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ :
ﺍِﻥَّ ﻋَﻠَﯿْﻨَﺎ ﻟَﻠﮭُﺪﯼٰ
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ :
ﻭَ ﺍِﻥَّ ﻋَﻠِﯿًّﺎ ﻟَﻠﮭُﺪٰﯼ ،
ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻻﯾﺖ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﻋَﻠَﯿْﻨَﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻋَﻠِﯿًّﺎ ﮨﮯ
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد:2 صفحہ:123
13-طوسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ :
ﻓَﻠَﺎ ﻳَﺴْﺘَﻄِﻴﻌُﻮﻥَ ﺳَﺒِﻴﻠًﺎ ۔ ٫٫ﺍﻻﺳﺮﺍﺀ : 48، ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ :9،،
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ: ﻓﻼ ﯾﺴﺘﻄﯿﻌﻮﻥ ﻭﻻية ﻋﻠﯽ ﺳﺒﯿﻼً۔
ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺷﻌﯿﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮯﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ
ﻭﻻت علی نکال ﺩئیے ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد:2 صفحہ:123
14- طوسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ : ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﻟﻈَّﺎﻟِﻤُﻮﻥَ ﺇِﻥْﺗَﺘَّﺒِﻌُﻮﻥَ ﺇِﻟَّﺎ ﺭَﺟُﻠًﺎ ﻣَﺴْﺤُﻮﺭًﺍ۔ ﺍﻻﺳﺮﺍﺀ : 47
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ : ﻭ ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻈﺎﻟﻤﻮﻥ
ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد :3 صفحہ:234
14- طوسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ :
ﻭَﻛَﺬَﻟِﻚَ ﺟَﻌَﻠْﻨَﺎﻛُﻢْ ﺃُﻣَّﺔً ﻭَﺳَﻄًﺎ ﻟِﺘَﻜُﻮﻧُﻮﺍ ﺷُﻬَﺪَﺍﺀَ ﺍﻟﺒﻘﺮۃ : 143
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ :
ﻭ ﮐﺬﺍﻟﮏ ﺟﻌﻠﻨﺎﮐﻢ ﺍﺋﻤﺘﮧ ﻭ ﺳﻄﺎ ﻋﺪﻻ ﺗﮑﻮﻧﻮﺍ ﺷﮭﺪﺍﺀ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻨﺎﺱ
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد:3 صفحہ:234
15-مجلسی نے لکھا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ
ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻋْﺘَﺪْﻧَﺎ ﻟِﻠﻈَّﺎﻟِﻤِﻴﻦَ ﻧَﺎﺭًﺍ ﺃَﺣَﺎﻁَ ﺑِﻬِﻢْ ﺳُﺮَﺍﺩِﻗُﻬَﺎ۔ ﺍﻟﮑﮭﻒ : 29
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﺍﻧﺎ ﺍﻋﺘﺪﻧﺎ
ﻟﻠﻈﺎﻟﻤﯿﻦ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻧﺎﺭﺍً ﺍﺣﺎﻁ ﺑﮭﻢ ﺳﺮﺍﺩﻗﮭﺎ
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد 3 صفحہ:378
16-مجلسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ سورہ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :
ﻭَﺍﻟْﻌَﺼْﺮِ ، ﺇِﻥَّ ﺍﻟْﺈِﻧْﺴَﺎﻥَ ﻟَﻔِﻲ ﺧُﺴْﺮٍ ، ﺇِﻟَّﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﻭَﻋَﻤِﻠُﻮﺍ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤَﺎﺕِ ﻭَﺗَﻮَﺍﺻَﻮْﺍ ﺑِﺎﻟْﺤَﻖِّ ﻭَﺗَﻮَﺍﺻَﻮْﺍ ﺑِﺎﻟﺼَّﺒْﺮِ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻌﺼﺮ
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ :
ﺍﻥ ﺍﻻﻧﺴﺎﻥ ﻟﻔﯽ ﺧﺴﺮ، ﺍﻧﮧ ﻓﯿﮧ ﻣﻦ ﺍﻟﺪﮬﺮ ﺍﻻ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﺍٰﻣﻨﻮﺍ ﻭ ﻋﻤﻠﻮﺍ ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﺎﺕ ﻭﺃﺗﻤﺮﻭﺍ ﺑﺎﻟﺘﻘﻮﯼٰ ﻭﺃﺗﻤﺮﻭﺍ ﺑﺎﻟﺼﺒﺮ
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻌﺼﺮ ﮐﻮ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : جلد 3 صفحہ:378
17-مجلسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :
ﻭَﻗُﻞِ ﺍﻟْﺤَﻖُّ ﻣِﻦْ ﺭَﺑِّﻜُﻢْ ﻓَﻤَﻦْ ﺷَﺎﺀَ ﻓَﻠْﻴُﺆْﻣِﻦْ ﻭَﻣَﻦْ ﺷَﺎﺀَ ﻓَﻠْﻴَﻜْﻔُﺮْ ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻋْﺘَﺪْﻧَﺎ ﻟِﻠﻈَّﺎﻟِﻤِﻴﻦَ ﻧَﺎﺭًﺍ ﺃَﺣَﺎﻁَ ﺑِﻬِﻢْ ﺳُﺮَﺍﺩِﻗُﻬَﺎ سورہ ﺍﻟﮑﮭﻒ : 29
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ :
ﻗﻞ ﺍﻟﺤﻖ ﻣﻦ ﺭﺑﮑﻢ ﻓﯽ ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﺍﻧﺎ ﺍﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻠﻈﺎﻟﻤﯿﻦ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻧﺎﺭﺍً ﺍﺣﺎﻁ ﺑﮭﻢ ﺳﺮﺍﺩﻗﮭﺎ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ جلد 3 صفحہ:385
18-مجلسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :
ﻓَﺒَﺪَّﻝَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻇَﻠَﻤُﻮﺍ ﻗَﻮْﻟًﺎ ﻏَﻴْﺮَ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻗِﻴﻞَ ﻟَﻬُﻢْ ﻓَﺄَﻧْﺰَﻟْﻨَﺎ ﻋَﻠَﻰ
ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻇَﻠَﻤُﻮﺍ ﺭِﺟْﺰًﺍ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺀِ ﺍﻟﺒﻘﺮۃ : 59
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﻓﺒﺪﻝ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﻇﻠﻤﻮﺍ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ ﻗﻮﻻً ﻏﯿﺮ ﺍﻟﺬﯼ ﻗﯿﻞ ﻟﮭﻢ ﻓﺎﻧﺰﻟﻨﺎ ﻋﻠﯽ
ﺍﻟﺬﯾﻦ ﻇﻠﻤﻮﺍ ﺍَٰ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ ﺭﺟﺰﺍ ﻣﻦ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ۔
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ
ﺩﺭﺝ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ جلد 3 صفحہ:385
19-مجلسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ : ﻳَﺎﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺎﺱُ ﻗَﺪْ ﺟَﺎﺀَﻛُﻢُ ﺍﻟﺮَّﺳُﻮﻝُ ﺑِﺎﻟْﺤَﻖِّ ﻣِﻦْ ﺭَﺑِّﻜُﻢْ ﻓَﺂﻣِﻨُﻮﺍ ﺧَﻴْﺮًﺍ
ﻟَﻜُﻢْ ﻭَﺇِﻥْ ﺗَﻜْﻔُﺮُﻭﺍ ﻓَﺈِﻥَّ ﻟِﻠَّﻪِ ﻣَﺎ ﻓِﻲ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﻭَﺍﺕِ ﻭَﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ
ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ :170
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻗﺪ ﺟﺎﺀﻛﻢ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﺑﺎﻟﺤﻖ ﻣﻦ ﺭﺑﻜﻢ ﻓﯽ ﻭﻻية ﻋﻠﯽﻓﺂﻣﻨﻮﺍ ﺧﻴﺮﺍ ﻟﻜﻢ ﻭﺇﻥ ﺗﻜﻔﺮﻭﺍ ﺑﻮﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﻓﺈﻥ ﻟﻠﻪ ﻣﺎ ﻓﻲﺍﻟﺴﻤﺎﻭﺍﺕ ﻭﺍﻷﺭﺽ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ ﺑﺸﺎﺭﺗﯽ مترجم صفحہ:389
ﻓﯽ ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﮯ۔
20-مجلسی لکھتا ہے:
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ : ﺇِﻥَّ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﻔَﺮُﻭﺍ ﻭَﻇَﻠَﻤُﻮﺍ ﻟَﻢْ ﻳَﻜُﻦِ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻟِﻴَﻐْﻔِﺮَ ﻟَﻬُﻢْ۔ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ :148
ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ :
ﺍﻥ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﻇﻠﻤﻮﺍ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ۔
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ جلد 3 صفحہ:389
21-شیعہ امام، محدث، ابن بابویہ
القمی لکھتا ہے:
امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن جمع کیا اور جب وہ ان خلفاء کے پاس لے کر آئے آپ نے کہا یہ آپ کے خدا کی کتاب ہے بلکل اسی طرح لکھی گئی ہے جس طرح تمھارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں ایک لفظ کی نہ کوئی کمی ہے نہ کوئی زیادتی ہے۔
انہوں (خلفاء) نے کہا ہمیں اس کی ضروت نہیں ہے ہمارے پاس اس طرح کا نسخہ ہے جس طرح کا تمھارے پاس ہے۔ تو آپ یہ پڑھتے ہوئے چلے گئے،تو انہوں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی، یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے۔
آل عمران: 187
کتاب الاعتقادات فی دین الامامیہ صفحہ: 86
23- شیعہ محقق علی الکورانی لکھتا ہے:
انہوں نےاس نسخہ کو اپنانے سے انکار کردیا کیونکہ اس میں سب اور اگر سب نہیں تو بہت سی آیات کی تشریح ان صحابہ کے مطابق علی کے حق میں تھی۔
تدوین قرآن صفحہ:181
24- شیعہ محقق جعفر المرتضی الاملی لکھتا ہے
قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمع کیا گیا تھا لیکن پہلے دو خلفاء نے رسول اللہ کا قرآن لینے سے انکار کیا کیونکہ اس میں اسباب نزول اور تشریح موجود تھی اور بہت سی چیزیں جو کہ بہت سے لوگوں کو متاثر کر سکتی تھیں لیکن خلفاء نے ان کو لینے سے انکار کیا اور سچ کو ظاہر ہونے نہیں دیا اس کے بعد انہوں نے قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا اور تشریح و تعویل اور اسباب نزول کو اس سے خارج کردیا۔
مسات الازھرہ جلد :1 صفحہ:346٫347
25- شیعہ محقق علی احمد الدقاق لکھتا ہے:
اور کچھ روایات یہ بھی بیان کرتی ہیں ان لوگوں کی رسوائی علوی قرآن میں موجود تھی اس لئے خلفاء نے اس قرآن کو لینے سے انکار کیا۔
حقیقت مصحف امام علی صفحہ: 304
26- یہی علی احمد الدقاق لکھتا ہے:
جب ابو بکر نے اس کو کھولا پہلے ہی صفحہ پر اس نے اپنی لئے رسوائی دیکھی تب عمر درمیان میں داخل ہوا، اور کہا کہ اے علی یہ واپس لے جا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔اس لئے ہم نے محسوس کیا کہ یہ اس کو رد کرنا اصل میں ایک ردعمل تھا کیونکہ اس کے اجزاء میں ان لوگوں کی رسوائی موجود تھی اس لئے انہوں نے اس کو مسترد کردیا تاکہ لوگوں سے چھپایا جا سکے
حقیقت مصحف امام علی صفحہ: 304
27- شیعہ محقق ظہیر البتار لکھتا ہے:
لیکن جب انہوں نے ان کا انکار کیا ان کے پاس ان کے اپنے خیالات کے مطابق نسخہ موجود تھا اس لئے انہوں نے اس قرآن کریم کو مسترد کردیا جو کہ آپ نے جمع کیا تھا جو کہ سبب نزول کے مطابق تھا تاکہ کسی کو اس کا غلط مطلب لینے کی جرأت کرے اور انہوں نے اسے اپنے طریقے سے جمع کیا
الامامہ تلک الحقائق القرآنیہ صفحہ: 49
28- مزید لکھتا ہے
اس مسئلہ حقیقت یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام قرآن و سنت کو بچانے کے خاطر ایک وکیل کا کردار ادا کر رہے تھے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ انہوں نے قرآن بشمول اسباب نزول آیات جمع کیا تھا کیوں کہ اس کا تعلق پھر تشریح کے ساتھ ہے اس لئے انہوں نے اس کو مسترد کردیا کیوں کہ یہ حقیقت بیان کر رہا تھا جو کہ ان کے طریقے کے خلاف تھا ۔
الامامہ تلک الحقائق القرآنیہ صفحہ:50
29-شیعہ مؤرخ علی الکورانی العاملی لکھتا ہے:
حقیقت مین قرآن کریم کو جمع کرنے کے کام میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ مسئلہ حکومت نے پیدا کردیا (یہاں حکومت سے مراد عمر رضہ ہیں) جس نے قرآن کریم کا ایک نسخہ کو سرکاری نسخہ قبول کرنے سے انکار کردیا جو کہ علی علیہ السلام لائے تھے ۔
الف سوال و اشکال جلد1 صفحہ :243
30- دوسری جگہ لکھتا ہے
اس کے ساتھ علی نے امت کی زمہ داری پوری کردی اور انہوں ایک قرآن کا نسخہ دیا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترتیب کیا ہوا اور کہ علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا لیکن انہوں نے (اپنے ارادوں کے لئے) سوچا کہ قرآن کریم کے اس نسخہ کو سرکاری ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
تدوین القرآن ص 256
31-شیعہ مصنف عبدللہ علی احمد الدقاق لکھتا ہے:
جو روایات امامی شیعہ کے ہاں پائی جاتی ہیں وہ اس بات کا اثبات کرتی ہیں کہ خلافت نے امام علی رضہ کے قرآن کو مسترد کردیا،اور کیوں کہ جو امامی روایات خلافت کی جانب سے قرآن کریم کو مسترد کرنے کے بارے میں ہیں وہ بھت زیادہ ہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ یہ معاملہ ہوا ہے ، امام علی کے قرآن کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ اور اس کا رد کردینا یہاں تک کہ اس کا نعم البدل بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی
حقیقت مصحف الامام علی عند السنہ والشیعہ صفحہ: 309-314
32-مشہور شیعہ عالم مرتضی الانصاری کتاب
اس لئے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے قرآن کو رد کردیا جب کہ انہوں نے ان کے سامنے پیش کیا ، تاکہ وہ اسے اپنے بیٹے القائم مھدی(اللہ ان کو جلدی ظاہر کردے) کے لئے چھپا سکیں۔
الصلواۃ قدیمی نسخہ صفحہ: 119
33-شیعہ محقق علی بن موسی التبریزی لکھتا ہے:
جیسا کہ ہم نے روایات سے ثابت کیا انہوں (علی رضہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن جمع کیا اور اس کو ان (خلفاء) کے پاس لائے لیکن انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا اس لئے یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا یہاں تک کہ مھدی آخر زمان کا ظھور ہو۔
مرأت الکتب صفحہ: 32
34- شیعہ علامہ محمد حسین طباطبائی لکھتا ہے۔
اور امیر المومنین علیہ السلام پہلے تھے جنھوں قرآن کو اس ترتیب سے جمع کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا لیکن انہوں نے اس کو رد کردیا اور انھوں نے آپ کو پہلے بار اور دوسری بار قرآن جمع کرنے میں شامل ہونے نہیں دیا-
القرآن فی الاسلام صفحہ: 137
35- دوسری جگہ لکھتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا علی اسلام اور قرآن کے علوم میں سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں ، لیکن انہوں نے آپ کو قرآن کی تدوین کے عمل میں شامل ہونے نہیں دیا (وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی گھر میں قرآن جمع کر رہے ہیں) اور ان کا نام ان کی ملاقاتوں اور اجتماعات میں ذکر نہیں کیا گیا ۔
الشیعہ فی الاسلام صفحہ:28٫29
36-شیعہ امام آیت اللہ علی المیلانی لکھتا ہے:
یہ سچ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن جمع کیا تھا اور میں نے پہلے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ امام (علی) ان کی طرف قرآن کریم کے ساتھ آئے لیکن انھوں نے اس کا انکار کیا ، علی کے پاس قرآن تھا یہ ثابت شدہ ہے اور ہر کسی کو یاد ہے
محاضرات فی الاعتقادات جلد: 2 صفحہ: 602
37-شیعہ امام آیت اللہ محمد الحسین التھرانی لکھتا ہے:
جہاں تک شیعہ روایات ہیں ان میں ہم یہ دیکھتے ہیں انہوں نے قرآن کریم کو اونٹ پر لادیا اور مسجد کی جانب لے کر آگئے اور کہا کہ یہ تمہارا قرآن ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہارے قرآن کی ضرورت نہیں ہے اور انہوں نے آپ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی پھر آپ نے اونٹ کے مہاریں کھینچی اور اپنے گھر چلے گئے پھر کہا کہ آپ لوگ اسے قیامت تک نہیں دیکھیں گے۔
نور الملکوت القرآن جلد: 4 صفحہ: 345
38-مزید لکھتا ہے:
امیر المومنین علیہ السلام وہ پہلے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن کریم کو جمع کرنے کا خیال پیش کیا اگرچہ ان کے اپنے نسخہ کو مسترد کردیا گیا تھا۔
نور الملکوت القرآن جلد :4 صفحہ:343
39-شیعہ انقلابی امام آیت اللہ محمد الشیرازی لکھتا ہے:
جہاں تک علی کے قرآن کا مسئلہ ہے کہ انہوں نے جمع کیا تھا لیکن رد کردیا گیا ، یہاں پراس کا مطلب ہے کہ یہ تفسیر اور تعویل کی صورت میں جمع کیا گیا تھا جیسا کہ انہوں (علی رضہ) نے ان روایات میں بیان کیا جو ان سے کی گئی ہیں۔
قرآن کب تدوین ہوا صفحہ: 31
40- شیعہ امام ،محدث ابو جعفر سےروایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ
القائم یعنی مہدی ایک نئی شریعت ، نئے قرآن ، اور نئے ارادے سے ظاہر ہونگے جو کہ عربوں پر سخت ہوگا ، وہ صرف اپنی تلوار استمعال کریں گے اور کسی کی بھی توبہ قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کو سنیں گے سواء اللہ کے-
غیبت النعمانیہ صفحہ: 237 ، بحار الانوار جلد:52 صفحہ: 354 ، اثبات الھدات جلد: 3 صفحہ: 540، معجم الحدیث المھدی جلد: 3 صفحہ 235۔
41-شیعہ انقلابی آیت اللہ محقق لکھتا ہے:
اور القائم کے بارہ میں ابو بصیر کی روایت ابو جعفر علیہ السلام سے ” اللہ کی قسم یہ ایسا ہے جیسے میں انہیں (مھدی) رکن و مقام کے بیچ دیکھ رہا ہوں اور لوگ ان کی ایک نئی شریعت ، نئی کتاب اور نئی آسمانی اختیار پر بیعت کر رہے ہیں ، اور نئے قرآن کریم سے ان (امام باقر) کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور علی رضہ کے ہاتھ سے لکھی گئی تشریح ہے جیسا کہ ہم نے بہت سی روایات میں پڑھا ہے۔
دراسات فی الولایت الفقیہ جلد:1صفحہ: 521
42- شیعہ محقق شیخ الکورانی لکھتا ہے:
اور نئی کتاب سے ایک نیا قرآن مراد ہوسکتا ہے جو آیات و اجزاء کی نئی ترتیب کے ساتھ ہوگا، یہ روایت کی گئی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور چیزوں کے ساتھ یہ قرآن کریم بھی مھدی کے پاس محفوظ ہے جو کہ اسے وراثت میں ملا ہے ۔
عصر الظہور صفحہ: 88٫89
43- شیعہ مفسر و محدث عبداللطیف البغدادی لکھتا ہے:
یہ قرآن کریم اپنی صحیح تشریح کے ساتھ علی کے پاس رہا ان کے بعد امام حسن کے پاس رہا اور یوں اماموں کی نجی وراثت کے طور پر چلتا ہوا اب یہ امام العصر و الزمان المھدی کے پاس ہے۔ باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہون نے کہا ” جب وہ ظاہر ہونگے تو وہ ایک نئی شریعت ، نئی کتاب ، نئی سنت اور نئے حکم سے شروعات کریں گے اور وہ عربوں پر سخت ہونگے۔
المجالس السنیہ میں ایک ابوجعفر سے ایک اور روایت ہے : اللہ کی قسم یہ ایسا ہے جیسے میں انہیں (مھدی) رکن و مقام کے بیچ دیکھ رہا ہوں اور لوگ ان کی ایک نئی شریعت ، نئی کتاب اور نئی آسمانی اختیار پر بیعت کر رہے ہیں ان کا جھنڈہ ان کی موت تک کبھی بھی نیچے نہیں ہوگا یہاں پر ایک نئی شریعت ، ایک نئی کتاب ، ایک نئی سنت اور نئے حکم اور اختیار سے مراد اسلام کے اصل قوانین لاگو کرنا ہے جو اللہ تعالی چاہتے ہیں اور قرآن کریم کو اس کی تنزیل و تعویل اور اس کی قوانین کی تشریح کے ساتھ واپس لانا ہے۔
تحقیق فی الامامہ صفحہ: 235٫236
44- شیعہ محقق محمد تقی الاصفحانی لکھتا ہے:
اللہ فرماتے ہیں اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا "سورہ فصلت :45 "الطبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ انکے لوگ اس پر اختلاف کریں گے اور مطلب اس کتاب کی صداقت پر جو ان پر نازل ہوئی ہے۔ اور اس کتاب پر بھی اختلاف ہوگا جو کہ القائم لےکر آئیں گے جو کہ مکمل کتاب ہے الحجہ (مھدی) کے پاس محفوظ ہے۔
مکال المکارم جلد:1 صفحہ: 184
اس میں جو اشارہ ہے وہ اسناد ہیں کتاب الروضہ الکافی میں ہے کہ ابوجعفر سے اللہ تعالی اس قول پر فرماتے ہیں۔
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا (سورہ فصلت آیت:45) وہ اس پر اختلاف کریں گے جیسے امت نے اپنی کتاب پر اختلاف کیا اور وہ القائم کی کتاب پر اختلاف کریں گے جو وہ اپنے ساتھ لائیں گے بہت سے لوگ اس کا انکار کریں گے اور وہ (مھدی) ان سب کو قتل کردیں گے اور ان کے سر الگ کردیں گے
45-مزید لکھتا ہے:
جب عزیز علیہ السلام اپنے لوگوں میں واپس آکر ان پر ظاہر ہونے تو وہ تورات کو اس طرح پڑہا جس طرح موسی بن عمران علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ۔ اور القائم جب زمین کے لوگوں پر ظاہر ہونگے تو وہ قرآن کریم کو اس طرح پڑہیں گے کہ جس طرح وہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہواتھا۔
مکال المکارم جلد:1 صفحہ:197
46مزید لکھتا ہے:
میں کہتا ہوں : اس میں کوئی راز ہوسکتا ہے کہ کیوں القائم کو عظیم قرآن کہا گیا ہے غور کرتے ہوئے کہ وہ آپکو حکم دیں گے اس کی پیروی کی اور اس کے پڑہنے پر لوگوں کو مجبور کریں گے وہ اسے ظاہر کریں گے اس کی تشہیر کریں گے۔
مکال المکارم جلد:1 صفحہ :63
خلاصۃ التحقیق
ان تمام شیعی روایات، واقعات،اور تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کا قرآن مجید کے متعلق کیا عقیدہ ہے، جو شیعہ کہتے تھے کہ یہ روایات ضعیف ہیں، ان کا جھوٹ بھی واضح ہو چکا ہے، کیونکہ ہم موجودہ دور کے شیعہ محقق علماء کی کتب سے بھی عقیدہ تحریف قرآن ثابت کر چکے ہیں،ہماری سادہ لوح مسلمانوں سے گزارش ہے کہ شیعہ کے کبھی بھی وکیل اور کفیل نہ بنیں۔
No comments
Post a Comment