Followers

اللہ بڑا ہے یا عرش گھمن کو جواب

      حیدر علی سلفی



اعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الرحمن علی العرش استوی
اما بعد!!!
اہل السنہ، اہل الحدیث اور قیاسی مذاہب،حنفیہ ماتریدیہ کے درمیان استوی علی العرش کے عقیدہ کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے قیاسی مذاہب پرانے دور کے ہوں یا موجودہ دور کے اوکاڑوی، گھمن پارٹی ہو ان کا دامن دلائل سے  بالکل خالی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل متعصب گھمن مولوی سوالات  اور انسانی مثالوں کو اللہ تعالیٰ  کے  لیے پیش کر کے اپنا عقیدہ ثابت کرنا چاہتا ہے-

گھمن اور پرائمری ماسٹر اوکاڑوی  پہلا سوال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بڑا ہے یا عرش؟؟؟دوسرا سوال کرتے ہیں مکان بڑا ہوتا ہے یا مکین؟؟؟ اگر مکین بڑا ہے تو مکان کے اندر کیسے آ سکتا ہے؟؟؟ اس مضمون میں ان سوالات کے جوابات بھی دیےگئے ہیں ،اور گھمنی پارٹی سے کچھ سوالات ہماری طرف سے بھی کیے گئے ہیں جن کا جواب مطلوب ہے-

عرش بڑا ہے یا اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت سے پہلے استوی کے بارہ میں اہل الحدیث کا عقیدہ واضح کرنا ضروری ہے اہل الحدیث کے عقیدہ استوی کے  بارہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں دلائل ملاحظہ فرمائیں-

إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ  الاعراف:54
"بے شک تمھارا رب اللہ ہے،جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھر عرش پر بلند ہوا۔"

إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ  یونس:3

"بے شک تمھارا رب اللہ ہے،جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھر عرش پر بلند ہوا۔"

ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَ‌فَعَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ  الرعد:2
‘‘اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستونوں کے،جنھیں تم دیکھتے ہو،پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔’’

الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ طہ:5
‘‘وہ بے حد رحم والا عرش پربلند ہوا۔’’

ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌ش الفرقان:59
‘‘وہ جس نے آسمانوں اورزمین کو اورجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ،چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھر عرش پر بلند ہوا۔’’

ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ السجدہ:4
‘‘اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اورزمين اور ان دونوں کے درمیان كی ہرچیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھروہ عرش پر بلند ہوا۔’’

هوالَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ  الحديد:4
"وہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھروہ عرش پر بلند ہوا۔"


 سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى سورۃ الاعلی : 1
" اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر "


 يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ سورۃ النحل : 50
 "اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں "

إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ۔۔ سورۃ فاطر : 10
 تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے

بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا النساء: 158
 بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں واﻻ ہے "

أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ  الملک : 16
 کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے 

ان تمام قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے اوپر عرش پر  ہے اور اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کاعلم ،قدرت،طاقت ہر چیز پر مسلط ہے،ان دلائل سے جان چھڑانے کے لیے گھمنی ذریت ان آیات کو متشابہات القرآن قرار دیتے ہیں یا پھر استوی کا اصل معنیٰ بگاڑ دیتے ہیں یا پھر جاہلانہ سوالات کا سہارا لیتے ہیں اب استوی کا مفہوم قرآن مجید سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے جس سے استوی علی العرش کی وضاحت مل جاتی ہے-

پہلی مثال:
لِتَسْتَوُۥا۟ عَلَىٰ ظُهُورِ‌هِ  

الزخرف:13

تاکہ تم ان جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر سواری کرو

دوسری مثال:

وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِىِّ هود:44

نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر آکرکھڑی ہوئی
 
آثار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

قرآن مجید کی متعدد آیات کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں احادیث مبارکہ موجود ہیں جن سے استوی علی العرش کی وضاحت مل جاتی ہے اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کر رہا ہوں کیونکہ اصل بحث کچھ اور ہے


ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ:“ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺗﮏﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺩﻭﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﮐﯽﻣﺴﺎﻓﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺁﺳﻤﺎﻥﺍﻭﺭ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ، ﮐﺮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﮐﯽﻣﺴﺎﻓﺖ ﮨﮯ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎﻋﺮﺵ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮﮨﮯ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ! ﺗﻤﮩﺎﺭﺍﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻞﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔

 ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺘﻮﺣﯿﺪابن خزیمہ رقم :594، ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ الکبیر رقم :8987



حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا کہ لوگو، کیا میں نے اللہ کا پیغام پنہچا دیا؟ تو سب نے کہا جی ہاں، پھر آپ ﷺ اپنی انگلی مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر لوگوں کی طرف کرتے ہوے فرماتے"اے اللہ تو گواہ ہو جا"
صحیح مسلم، رقم: 2137 

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت زینب بنت جحشؓ اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ میری شادی ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اللہ رب العزت نے کروائی ہے۔
صحیح بخاری رقم: 6870


حضرت ابی سعید الخدری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،کیا تم مجھے امین تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ مجھے اس نے امین تسلیم کیا جو آسمان پر ہے۔میرے پاس آسمان سے خبر صبح و شام آتی ہے۔
صحیح بخاری رقم: 4004



رسول اللہ ﷺ کا معراج کا واقعہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے ساتوں آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا سدرۃ المنتھی کے پاس۔وہاں میں نے اللہ ﷻ کو سجدہ کیا پھر اللہ تعالی نے پچاس نمازوں کاحکم دیا۔ 
 سنن نسائی رقم: 446

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ سورج جب اللہ تعالیٰ کے عرش کے پاس سے گذرتا ہے تو جھک جاتا ہے اور جھک کر اللہ تعالیٰ کو سجدہ ریز ہوتا ہے
صحیح البخاری

ان تمام آثار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے اوپر ہے،، ہم اس کی کیفیت کو نہیں جانتے البتہ عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے

اب دلائل کے میدان میں ذلت ورسوائی کے بعد گھمنی پارٹی یہ سوال کرتی ہے کہ اللہ بڑا ہے یا پھر عرش؟؟؟اللہ کا عرش مبارک کتنا بڑا ہے اس کی وسعت کتنی ہے اللہ تعالیٰ کی کرسی کتنی وسیع ہے اس  کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺟﺮﯾﺮ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺑﺎﺳﻨﺪ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺳﻠﻢﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:“ﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫﺳﺎﺕﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﻮﮞ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﺕﺩﺭﮨﻢ ﮐﺴﯽ ﮈﮬﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﮞ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮﺫﺭ ﻏﻔﺎﺭﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺳﻨﺎ:ﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽﮐﯽﮐﺮﺳﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﯿﮟﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﺎ ﭼﮭﻼ ﮐﺴﯽﻭﺳﯿﻊ ﻭ ﻋﺮﯾﺾ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮ۔

ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦ ﺟﺮﯾﺮ ﻟﻠﻄﺒﺮﯼ، حدیث:4522،
ﺍﻻﺳﻤﺎﺀ ﻭ ﺍﻟﺼﻔﺎﺕ ﻟﻠﺒﯿﮭﻘﯽ، حدیث:510

گھمن کہتا ہے مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑا ہے تو پھر عرش پر کیسے مستوی ہے؟؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہو کر بھی چھوٹے عرش پر مستوی ہونے کی قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ جب کائنات کے ذرے ذرے پہ حاکمیت پر قدرت رکھتا ہے تو پھر عرش پر مستوی ہونا کونسا مشکل کام ہے ، یہ بھی ایک ضابطہ ہے ہم گھر اور مکان بناتے ہیں، ان کی چھتوں کے لیے ستون بنائے جاتے ہیں،اگر چھت کے نیچے سے دیوار اور ستون نکال دیا جائے تو اس چھت کا کیا حال ہوگا؟لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا آسمان بغیر کسی ستون اور بنیاد کے کھڑا کر دیا، جب اللہ تعالٰی کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے لیے عرش پر مستوی ہونا کونسا مشکل کام ہے؟؟؟

 اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے، انسانی مثالیں اللہ تعالیٰ کے لیے پیش کرنا گھمنی ذریت کی جہالت کا ثبوت ہے

اللہ بڑا یا عرش
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پوری کائنات کو اپنے ہاتھ میں لے کر جھنجوڑ کر رکھ دے گا 

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ •

اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔
سورة الزمر: 67

ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ،ﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:“ﺍﻟﻠﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮﺍﭘﻨﮯ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ
ﮔﺎ:ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﮞ۔ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﺮﮐﺶ ﺍﺭﻭ ﻣﺘﮑﺒﺮﺳﻤﺠﮭﺎ؟ ﭘﮭﺮ ﺳﺎﺗﻮﮞ ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﭙﯿﭧﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﮯ ﮔﺎﺍﻭﺭﻓﺮﻣﺎﺋﮯﮔﺎ:ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﮞ۔ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯﺩﻧﯿﺎﻣﯿﮟﺧﻮﺩﮐﻮﺳﺮﮐﺶ ﺍﻭﺭﻣﺘﮑﺒﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ؟”

ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ، ﺻﻔﺎﺕ ﺍﻟﻤﻨﺎﻓﻘﯿﻦ ﻭﺍﺣﮑﺎﻣﮭﻢﺍﻟﻨﺎﺭ، حدیث رقم:2788

ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ:ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥﺳﺎﺗﻮﮞ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﻮﮞﺯﻣﯿﻨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﮯﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺩﺍﻧﮧ۔

تفسیر ﺍﺑﻦ ﺟﺮﯾﺮ ﻟﻠﻄﺒﺮﯼجلد:24 صفحہ:32

ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  پوری کائنات کو اپنے ہاتھ میں لے کر جھنجوڑ کر سوال کرے گا،واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ سب سے بڑا ہے اس کی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جبکہ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح احادیث موجود ہیں جو گھمنی سوچ کو باطل قرار دیتی ہیں

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، (فَذَکَرَ حَدِيْثًا طَوِيْلًا)، قَالَ : فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ، قَدْ تَبَيَنَ لَکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا إِخْوَانُنَا، کَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا، وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا، وَيَعْمَلُوْنَ مَعَنَا، فَيَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِيْنَارٍ مِنْ يْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، وَيُحَرِّمُ اﷲُ صُوَرَهُمْ عَلَی النَّارِ، فَيَأْتُوْنَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَی قَدَمِهِ وَإِلَی أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ، فَيَقُوْلُ : إذْهَبُوْا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِيْنَارٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ، فَيَقُوْلُ : إِذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ يْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا. قَالَ أَبُوسَعِيْدٍ : فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُوْنِي فَاقْرَءُ وا (إِنَّ اﷲَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَکُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا) [النساء، 4 : 40]. فَيَشْفَعُ النَّبِيُّوْنَ وَالْمَلَائِکَةُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ. فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ : بَقِيَتْ شَفَاعَتِي، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدِ امْتُحِشُوْا، فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرٍ بِأَفْوَهِ الْجَنَّةِ، يُقَالُ لَهُ : مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُوْنَ فِي حَافَتَيْهِ کَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيْلِ السَّيْلِ، قَدْ رَأَيْتُمُوْهَا إِلَی جَانِبِ الصَّخْرَةِ وَإِلَی جَانِبِ الشَّجَرَةِ، فَمَا کَانَ إِلَی الشَّمْسِ مِنْهَا کَانَ أَخْضَرَ، وَمَا کَانَ مِنْهَا إِلَی الظِّلِّ کَانَ أَبْيَضَ، فَيَخْرُجُوْنَ کَأَنَّهُمُ اللُّؤْلُؤُ، فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمِ الْخَوَاتِيْمُ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيَقُوْلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ : هٰؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الرَّحْمٰنِ، أَدْخَلَهُمُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوْهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوْهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ : لَکُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلَهُ مَعَهُ.



’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیثِ مبارکہ مروی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مؤمنین کا اپنے مؤمن بھائیوں کی شفاعت کرنے کے باب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم مجھ سے حق کا مطالبہ کرنے میں جو تمہارے لئے واضح ہوچکا ہے آج اس قدر سخت نہیں ہو جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ سے مطالبہ کریں گے جس وقت وہ دیکھیں گے کہ وہ نجات پاگئے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے حق میں مطالبہ کرتے ہوئے وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! (یہ) ہمارے بھائی (جن کو تو نے دوزخ میں ڈال دیا ہے ہماری سنگت اختیار کیے ہوئے تھے یہ) ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ عمل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں دینار کے وزن کے برابر ایمان پاؤ اسے (دوزخ سے) نکال لو اور اللہ تعالیٰ ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کردیگا، پس وہ ان کے پاس آئیں گے جبکہ بعض قدموں تک اور بعض پنڈلیوں تک آگ میں ڈوبے ہوئے ہوں گے چنانچہ وہ جن کو پہچانیں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو، پس وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ پھر وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو چنانچہ وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے : (بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اوراگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے) [النساء، 4 : 40]، (تو صحبتِ صالحین بھی عظیم نیکی ہے۔ ) پس انبیاء، فرشتے اور مؤمنین شفاعت کریں گے تو خالق ومالک جبار فرمائے گا : میری شفاعت باقی ہے پھر وہ دوزخ سے (جہنمیوں کو) مٹھی بھر کر نکالے گا جو جل کر کوئلے کی طرح ہوچکے ہوں گے اور انہیں نہرِ حیات میں ڈال دیا جائے گا جو جنت کے کناروں پر ہے۔ چنانچہ وہ اس طرح تر و تازہ ہو کر نکلیں گے جیسے سیلابی جگہ سے دانہ اگتا ہے جن کو تم نے کسی پتھر یا درخت کے پاس دیکھا ہو گا۔ جو ان میں سے سورج کی طرف ہوتا ہے سبز اور جو سایہ میں ہوتا ہے سفید رہتا ہے گویا وہ موتیوں کی مانند نکلیں گے اور ان کی گردنوں میں مہریں لگا دی جائیں گی تو وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اہلِ جنت کہیں گے : یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں کہ اس نے ان کو بغیر عمل کیے اور بغیر کسی بھلائی کو آگے بھیجنے کے جنت میں داخل کر دیا۔ پس ان (جہنم سے آزاد ہونے والوں) سے کہا جائے گا : جو کچھ تم نے دیکھا وہ بھی تمھارا ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہے 

صحیح البخاری رقم :4919 ،7439، صحيح ابنِ حبان رقم : 7377، مستدرک حاکم رقم : 8736

اس حدیث مبارکہ  کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اپنی مٹھی بھر کر جہنم سے نکالے گا اب ہمارا گھمن پارٹی سے سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جس کے اندر پوری کائنات ہے وہ بڑا ہے یا جہنم؟؟؟
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جہنم سے بڑا ہے ،گھمن کے اصول کے مطابق مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے ،اللہ کا ہاتھ جو بڑا ہے، وہ جہنم میں کیسے داخل ہو گا؟؟؟

دوسری حدیث

عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم " تحاجت الجنة والنار، فقالت النار: أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين، وقالت الجنة: ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم، قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي، وقال للنار: إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي، ولكل واحدة منهما ملؤها، فأما النار: فلا تمتلئ حتى يضع رجله فتقول: قط قط 

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت اور دوزخ نے بحث کی ، دوزخ نے کہا میں متکبروں اورظالموں کے لئے خاص کی گئی ہوں ۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہواکہ میرے اندر صرف کمزور اور دنیوی نقطہ نظر سے کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے ، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں ۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی ۔ دوزخ تو اس پر وقت تک نہیں بھرے گی پھر اللہ رب العزت اپنا قدم مبارک اس میں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس --

صحیح البخاری  كتاب تفسير القرآن ،باب قوله: وتقول هل من مزيد رقم:4850

اس حدیث مبارکہ  کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اپنا قدم مبارک جہنم  میں داخل کر دے گا ،اب ہمارا گھمن پارٹی سے سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قدم مبارکہ  بڑا ہے یا جہنم؟؟؟
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قدم مبارک جہنم سے بڑا ہے ،گھمن کے اصول کے مطابق مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے ،اللہ  تعالیٰ کا قدم مبارک جو بڑا ہے، وہ جہنم میں کیسے داخل ہو گا؟؟؟

ان سوالات کا جواب گھمنی ذریت کے ہاں کیا ہے اس کے بارہ میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، البتہ ان  سوالات کا صحیح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ  جس طرح اپنا ہاتھ، اور قدم جہنم میں داخل کرنے پر قادر ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہونے پر بھی قادر ہے-











No comments

Theme images by konradlew. Powered by Blogger.