Followers

کیا نماز کی رکعات تعداد احادیث میں نہیں ہیں



تحریر: شیخ الاسلام محدث العصر الشیخ حافظ 
زبیر علی زئی رحمہ اللّٰہ


محترم حافظ صاحب! ایک دیوبندی ’’بھائی‘‘ نے ہم سے یہ سوال کیا ہے کہ آپ ہمیں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد احادیث صحیحہ سے دلیل کے ساتھ بتا دیں تو ہم مان جاتے ہیں کہ مسلک اہلحدیث صحیح مسلک ہے جبکہ ہمارے پاس فقہ حنفی میں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد موجود ہے۔ اور ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ کی کاوشوں سے ہی ان رکعات کی تعداد علم میں آئی ہے اور پڑھی جاتی ہیں۔ (جن میں عشاء کی 17 رکعات بھی شامل ہیں)
چنانچہ گزارش ہے کہ آپ صحیح حدیث کی روشنی میں مکمل تفصیل اور تخریج کے ساتھ یہ مسئلہ لکھ دیں۔ براہ کرم لکھتے وقت صرف حدیث نمبر نہ لکھیں بلکہ مکمل تخریج کے ساتھ لکھیں۔ نیز نفلی رکعات کی تعداد بھی لکھ دیں۔
……… الجواب ………
رسول اللّٰہ ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا:
((فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِيْ یَوْمِہِمْ وَلَیْلَتِہِمْ))
’’پھر اُنھیں بتا دو: بے شک اللّٰہ نے اُن پر اُن کے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری ج 2 ص 1096، کتاب التوحید باب نمبر 1، ح 7372، صحیح مسلم ج1ص 37 ح 19، ترقیم دارالسلام: 121، کتاب الایمان باب الدعاء الی الشھادتین و شرائع الاسلام)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا:
رسول اللّٰہ ﷺ پر پہلے جو نماز فرض ہوئی وہ دو دو رکعتیں تھیں سوائے مغرب کے، پس بے شک وہ تین (رکعتیں) تھیں۔ پھر اللّٰہ نے ظہر، عصر اور عشاء کو حضر (یعنی اپنے علاقے) میں چار رکعتیں پورا کر دیا اور سفر میں نماز اپنے پہلے فرض پر ہی مقرر رہی۔
(مسند احمد ج 6 ص 272 ح 26338 وسندہ حسن لذاتہ)
اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہیں:
1- نمازِ فجر دو رکعت فرض ہے۔
2- نمازِ ظہر اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔
3- نمازِ عصر اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔
4- نمازِ مغرب تین رکعتیں فرض ہے۔
5- نمازِ عشاء اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔
دیوبندی نے نمازِ پنجگانہ کی رکعات کا جو مطالبہ کیا، وہ اس حدیث سے ثابت ہو گیا اور یاد رہے کہ ان رکعاتِ مذکورہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ دیکھئے مراتب الاجماع لابن حزم (ص 24۔25) اور میری کتاب توضیح الاحکام (ج 1 ص 408)
دیوبندی کا یہ کہنا ’’ہمارے پاس فقہ حنفی میں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد موجود ہیں۔‘‘ غلط ہے، کیونکہ فقہ حنفی تو امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کا نام ہے اور حنفیوں کے پاس فقہ میں امام ابو حنیفہ کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ ابن فرقد شیبانی اور قاضی ابو یوسف دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح تھے اور ان سے بھی یہ دیوبندی دعویٰ ثابت نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ کی وفات کے بہت بعد پیدا ہونے والے قدوری، سرخسی اور ملا مرغینانی وغیرہم کے حوالے فضول ہیں اور انھیں فقۂ حنفی کہنا غلط ہے۔
مذکورہ دیوبندی سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ سے پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد، سنن کی تعداد اور نوافل ثابت کر دیں، اور اگر نہ کر سکیں تو پھر اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کے خلاف پروپیگنڈا کرنا چھوڑ دیں۔
جب امام ابو حنیفہ پیدا نہیں ہوئے تھے تو لوگ کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟
انھیں کہیں کہ وہ صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ سے عشاء کی 17 رکعات بھی ثابت کریں۔ یہ لوگ امام ابو حنیفہ کا نام لے کر، اُن کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے اہلِ حدیث (اہلِ سنت) کو دھوکا دیتے ہیں۔
سنتوں کی تعداد درج ذیل ہے:
1- صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 157 ح 1180، ابواب التطوع باب الرکعتیں قبل الظھر)
2- ظہر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں۔ (صحیح بخاری، دیکھئے سابقہ فقرہ نمبر 1)
ظہر کی نماز کے بعد دو رکعتیں (صحیح بخاری، دیکھئے سابقہ فقرہ نمبر 1)
ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں بھی ثابت ہیں۔
دیکھئے صحیح بخاری (ج 1 ص 157 ح 1182، ابواب التطوع باب الرکعتیں قبل الظھر)
3- عصر سے پہلے دو رکعتیں۔ (سنن ابی داود: 1272، وسندہ حسن)
عصر سے پہلے چار رکعتوں کی فضیلت بھی ثابت ہے۔ (دیکھئے سنن الترمذی، کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الأربع قبل العصر ح 430 وقال:’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ وسندہ حسن)
4- مغرب کے بعد دو رکعتیں (صحیح بخاری ج 1 ص 128 ح 937، کتاب الجمعہ باب الصلوٰۃ بعد الجمعۃ و قبلھا)
5- عشاء کے بعد دو رکعتیں۔ (صحیح بخاری، دیکھئے سابقہ فقرہ نمبر 4)
((إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ)) سوائے اس کے جو تم نفل پڑھو۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 12 ح 46 کتاب الایمان باب الزکوٰۃ من الاسلام) کی رُو سے (دو دو کر کے) جتنے نوافل پڑھیں جائز ہے۔
دیوبندی کو کہیں کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب صحیح حدیث اور اجماع سے دے دیا ہے، لہٰذا آپ اب مسلک اہلِ حدیث قبول کر لیں۔
اگر وہ مسلکِ حق قبول نہیں کرتے تو پھر اپنے دعوے کے مطابق امام ابو حنیفہ سے صحیح سند کے ساتھ درج ذیل باتیں ثابت کریں:
1- نماز پنجگانہ کے فرائض کی تعداد
2- سُنن کی تعداد
3- نوافل
4- عشاء کی 17 رکعات
یاد رہے کہ بے سند کتابوں مثلاً قدری، مبسوط، ہدایہ اور فتاویٰ شامی وغیرہ کے حوالوں کی کوئی ضرورت نہیں اور ضعیف و مجروح راویوں مثلاً قاضی ابو یوسف اور محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی وغیرہما کا کوئی حوالہ پیش نہ کریں۔
دیوبندیوں اور بریلویوں کا یہ کہنا کہ ’’ہماری نماز امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے‘‘ بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔ کیا امام ابو حنیفہ نے کہا تھا کہ اے بریلویو! اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھو اور اے دیوبندیو! تم نہ پڑھو۔ اے بریلویو! تم جنازے کے بعد دعا کرو اور اے دیوبندیو! تم یہ دعا نہ کرو۔ اے دیوبندیو! تم ولاالضالین ظاء کے ساتھ پڑھو اور اے بریلویو! تم ولا الضالین دال کے ساتھ پڑھو۔
اگر صحیح متصل سند ہے تو اسے پیش کرو ورنہ یاد رکھو کہ امام ابو حنیفہ تمھاری ان باتوں سے بَری ہیں، لہٰذا خواہ مخواہ اُن کا نام لے کر اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کو دھوکا نہ دو۔ آخر ایک دن اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں پیش بھی ہونا ہے، اُس دن کیا جواب دو گے؟! و ما علینا إلا البلاغ
……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 91 تا 95) للشیخ ابو طاہر زبیر علی زئی رحمۃ اللّٰہ علیہ

2 comments

Islamic blog said...

🍂🍃بسم الله الرحمن الرحیم​🍃🍂

*نور و بشر کا مسئلہ*

بعض حضرات کا عقیدہ ہے کہ نبیﷺ نور سے بنے ہیں اِن حضرات کی دلیل قرآنی یہ آیت ہے

اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

(قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ الله نُورٌ وَ کِتَابٌ مُبِینٌ)

یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آچکا ہے اور ایک کھلی کتاب بھی۔( سورۃ المائدۃ: 15 )

ابن الجوزی نے، اِس آیت کی تفسیر میں { نور } کے سلسلہ میں دو اقوال زکر کيے ہیں ایک یہ کہ نور سے مراد خود اللہ کے نبی ﷺ ہیں اور دوسرا اقوال یہ کہ ہے، اس سے مراد اِسلام ہے
لیکن کیا نبی تخلیق کے اعتبار سے نور ہیں یا پھر آپ تبین یعنی اندھیرے میں چھپے حق کو سامنے لانے کے اعتبار سے نور ہیں،

مفسرین اس سوال کا جواب دیا ہے

ابن جریر الطبری فرماتے ہیں۔
یعني بالنور محمد ﷺ الذي أنار اللہ به الحق وأظھرا
به اسلام ومحق به الشرك فه‍و نور لمن استنار به یبین الحق ومن إنار ته لحق تبینه للیھود کثیر مما كانو یخفون من الکتب
یہاں نور سے مراد نبی ﷺ ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالی نے حق کو ظاہر کِیا اسلام کو غالب کر دیا اور شرک کو مٹا دیا۔ لہٰذا آپ ﷺ اُس شحص کے لیے نور ہیں جو آپ سے نور حاصل کرے۔ اور آپ ﷺ کے حق کو روشن کرنے ہی میں یہ بھی ہے آپ ﷺ نے بہت سی ان چیزوں میں تبین وضاحت کر دی جنہیں یہود لوگ سے چُھپا دیا کرتے تھے۔
(جامع البیان تحقیق احمد شاکر 10/ 143)

اگر اس آیت کو پورا پڑھا جائے تو یہ بات واضح، طور پر سمجھ میں آتی ہے۔

سورۃ نمبر 5 المائدة
آیت نمبر 15

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ قَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلُـنَا يُبَيِّنُ لَـكُمۡ كَثِيۡرًا مِّمَّا كُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡكِتٰبِ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍ‌ ؕ قَدۡ جَآءَكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ نُوۡرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيۡنٌ ۞

ترجمہ:
اے اہل کتاب ! یقینًا تمہارے پاس ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آچکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔

سورۃ نمبر 5 المائدة
آیت نمبر 16
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

يَّهۡدِىۡ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ بِاِذۡنِهٖ وَيَهۡدِيۡهِمۡ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ ۞

ترجمہ:
جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہ بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف راہبری کرتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے اہل الحدیث نبی ﷺ کو عام بشر نہیں بلکہ خیر البشر مانتے ہیں،اور اگر آپ کو بشر ماننا آپ کی شان میں گستاخی ہے تو ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ خود نبی ﷺ کی سب سے چہیتی بیوی اور مسمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا کیا عقیدہ تھا وہ کیا فرماتی ہیں

عائشہ رضی عنہا فرماتی ہیں؟

{ کَانَ بَشَرً مِنَ البَشَرِ }

اللہ کے رسول ﷺ ایک بشر ہی تھے
(مسند احمد، 26237)

اب کیا حضرت عائشہ رضی عنہا کو بھی گستاخِ رسول کہا جائے! نہیں،

بلکہ اپنے عقیدہ کی اصلاح کرنی پڑے گی۔

✍️محمد فرحان : سلفی

جزاک اللہ خیر🌹

Haydar Ali Salafi said...

ماشاءاللہ

Theme images by konradlew. Powered by Blogger.